021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بلڈر اور بروکر کے درمیان معاملہ کی ایک مخصوص صورت کا حکم(بلڈرکا بروکر سے بطور زر ضمانت رقم اور عقد کی تکمیل پر کمیشن سمیت واپس کرنا )
74821وکیل بنانے کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

۱۔ایک شخص بلڈر کے لیے بروکریج کا کام کرتا ہے یعنی اس کے پراجیکٹ کے لیے خریدار ڈھونڈ کر لاتا ہے اور اپنا کمیشن وصول کرلیتا ہے۔

بلڈر اس بروکر سے بطور سنجیدگی اور طے شدہ وقت میں کام مکمل کروانے،نیز اناڑی بروکرز سے احتراز کرنے اور صرف مضبوط ساکھ کے حامل بروکرز کی تلاش کرنے کے لیے کچھ رقم وصول کرتا ہے جو کہ کام مکمل نہ ہونے کی صورت میں مدت کے اختتام پر یا مکمل ہونے کی صورت میں کام کے اختتام پر بلا کٹوتی واپس کردی جاتی ہے۔یہ رقم ہر ہر یونٹ دکان و مکان وغیرہ کے لیے الگ سے مختص ہوتی ہے چنانچہ جتنی رقم بروکر رکھوادیتا ہے اتنی ہی مکان و دکان وغیرہ میں بروکریج کرنے کااختیار بروکر کو مل جاتا ہے۔مثلا ایک دوکان کی بروکریج کے لیے متعین رقم ایک لاکھ ہے تو دس لاکھ رکھوا کر دس دکانوں میں کام کرنے کا اختیار مل جاتا ہے۔پھر جب وہ یہ دوکانیں فروخت کروادے گا یہ دس لاکھ روپے اور ساتھ اس کا جو طے شدہ کمیشن تھا وہ مل جائے گا۔یاد رہے کہ اگر دکانیں نہ بکوا سکا تو کمیشن نہیں ملتا،البتہ رکھوائی گئی رقم کمی بیشی کے بغیر واپس کردی جاتی ہے،کمیشن صرف کام کا نتیجہ ہوتا ہے رکھوائی گئی رقم کا نہیں۔کیا اس طرح یہ رقم رکھوا کر کام کرنا ٹھیک ہے؟

2۔بسا اوقات مذکورہ بروکر کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ خود اتنی بڑی رقم رکھوا سکے۔اس کے لیے مختلف لوگوں سے رابطہ کرکے یہ رقم جمع کرتا ہے اور ان سے یہ طے کرتا ہے میں تمھارا وکیل بن کر یہ بروکریج کا کام کرلیتا ہوں ، جو کمیشن ملے گا وہ سارا تمھارا ہوگا۔تم مجھے اس میں سے ایک طے شدہ مقدار میں وکالت کا معاوضہ دے دینا،مثلا زید ایک بروکر ہے ، جس کے پاس پیسے نہیں تھے،اس نے خالد سے رابطہ کرکے ایک لاکھ روپے حاصل کیے اور اس کا وکیل بن کر بلڈر کے پاس جاکر ایک لاکھ رکھوادیے اور ایک دوکان کو فروخت کروانے کا حق حاصل کیا ،پھر جب دوکان کسی کسٹمر کو فروخت کروادی تو ایک لاکھ روپے مع طے شدہ کمیشن وصول کرکے خالد کو لاکر دیا کہ میں نے تمھاری طرف سے کام کیا تھا،یہ تمھارا حق اور اصل رقم ہےاور پھر خالد اس کمیشن میں سے طے شدہ مقدار زید کو وکالت کا کمیشن دیتا ہے۔کیا اس طرح دوسروں کا وکیل بن  کر بروکریج کرنا درست ہے؟

3۔اگر مذکورہ وکالت درست ہے تو کیا بروکر مختلف ومتعدد لوگوں کا وکیل بن سکتا ہے؟ یعنی اگر وہ مختلف لوگوں سے رقم وصول کرے اور بلڈر کے پاس مجموعی رقم رکھواکر کچھ دوکانیں آگے بیچنے کے لیے وصول کرے اور پھر جب وہ فروخت کرواچکے تو ہر موکل کو اس کی اصل رقم مع اس کے کمیشن کے واپس کردے اور اس سے اپنا طے شدہ کمیشن وصول کرلے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔ صورت مسؤولہ میں بلڈر کی طرف سے بروکر سے متعین رقم رکھوانے  کا مطالبہ عمومی اصول کی رو سے درست معلوم نہیں ہوتا ، اس لیے کہ بروکر اور بلڈر کے درمیان وکالت بالاجرہ(اجارہ) کا معاملہ ہے اور اور وکیل (اجیر) سے عقد وکالت (اجارہ) میں مزید کسی معاملہ کی شرط لگانا،جیسے کہ مذکورہ معاملے میں رقم رکھوانے کا مطالبہ کرنا یہ ایک عقد کو دوسرے عقد کے ساتھ مشروط کرنے کی طرح ہے ،جسے فقہاء کی اصطلاح میں صفقۃ فی صفقۃ کہا جاتا ہےاور یہ عام حالات میں جائز نہیں ہے۔البتہ سوال میں کی گئی صراحت کے مطابق"کہ بلڈر اس بروکر سے بطور سنجیدگی اور طے شدہ وقت میں کام مکمل کروانے،نیز اناڑی بروکرز سے احتراز کرنے اور صرف مضبوط ساکھ کے حامل بروکرز کی تلاش کرنے کے لیے کچھ رقم وصول کرتا ہے جو کہ کام مکمل نہ ہونے کی صورت میں مدت کے اختتام پر یا مکمل ہونے کی صورت میں کام کے اختتام پر بلا کٹوتی واپس کردی جاتی ہے"اس طرح کی رقم کا مطالبہ کرنے کی گنجائش دو وجہوں سے ممکن ہے۔

۱)خریدوفروخت کے معاملے میں عقد مکمل ہونے سے پہلے خریدار کی سنجیدگی کے اظہار کے لیے،بائع کی طرف سے رقم کا مطالبہ کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے ، جسے فقہاء کی اصطلاح میں ھامش الجدیہ کہا جاتا ہے، لہٰذا عقد بیع پر قیاس کرتے ہوئے یہاں اجارہ میں بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

۲)عقد معاوضہ یعنی بیع و اجارہ وغیرہ میں لگائی جانے والی شرائط کی کئی قسمیں ہیں ، ان میں سے ایک قسم کی شرائط وہ ہیں جو مقتضائے عقد کے بھی خلاف ہو اور ملائم عقد بھی نہ ہوں تو ایسی شرائط اصلاً ناجائز ہوتی ہیں لیکن اگر اس طرح کی کسی شرط کا تعامل ہوجائے تو وہ عرف وتعامل کی وجہ سے جائز ہوجاتی ہے، بشرطیکہ کسی صریح نص کے خلاف نہ ہو۔مذکوہ معاملے میں اگر بلڈرز، بروکرز کے ساتھ اسی طرح معاملہ کرتے ہوں  کہ رقم رکھوائے بغیر وکالت بالاجرہ کا معاملہ نہ کرتے ہوں تو اس تعامل کی وجہ سے بھی بروکر کی طرف سے اس رقم کو رکھوانے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔البتہ بلڈر اس رقم کو استعمال نہ کرے بالہ امانت کے طور پر اپنے پاس رکھے اور معاملہ مکمل ہونے پر مکمل رقم واپس کردے۔

۲۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں سائل کی وضاحت کے مطابق اصل معاملہ پیسے رکھوانے والے اور بلڈر کے درمیان ہوا تھا اور بروکر بجائے بلڈر کا وکیل بالاجرہ بننے کے پیسے رکھوانے والے کا وکیل بالاجرہ بن کر خدمات سر انجام دیتارہا ہے اور اپنا طے شدہ کمیشن معاہدے کے مطابق پیسے رکھوانے والے سے وصول کرے گا،اس صورت میں اگر بلڈر کی طرف سے پیسے رکھوانے والے کو یہ اجازت ہوکہ وہ مفوضہ کام دوسرے کسی شخص سے بھی کروا سکتا ہے تو یہ صورت جائز معلوم ہوتی ہے، یعنی مذکورہ مثال میں زید ، بلڈر کا وکیل بالاجرہ شمار ہوگا اور خالد ، زید کا وکیل بالاجرہ شمار ہوگا۔

۳۔کسی شخص کے لیے متعدد افراد کی طرف سے بطور وکالت یا اجیر مشترک کام کرنا جائز ہے ، لہٰذا یہ صورت بھی جائز معلوم ہوتی ہے۔

حوالہ جات
۱) (تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها).
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 46)
(قوله وكشرط طعام عبد وعلف دابة) في الظهيرية: استأجر عبدا أو دابة على أن يكون علفها على المستأجر، ذكر في الكتاب أنه لا يجوز.
وقال الفقيه أبو الليث: في الدابة نأخذ بقول المتقدمين، أما في زماننا فالعبد يأكل من مال المستأجر عادة اهـ.
قال الحموي: أي فيصح اشتراطه.
واعترضه ط بقوله فرق بين الأكل من مال المستأجر بلا شرط ومنه بشرط اهـ.
أقول: المعروف كالمشروط، وبه يشعر كلام الفقيه كما لا يخفى على النبيه، ثم ظاهر كلام الفقيه أنه لو تعورف في الدابة ذلك يجوز تأمل.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 47)
وقد جرت العادۃ  فی بعض المعاملات الیوم ان احد طرفی العقد  یطالب الآخر بدفع  بعض المال عند الوعد بالبیع قبل انجاز العقد ، وذالک للتأکد من جدیتہ فی التعامل وذالک لتأکید وعدہ بالشراء، ویسمی فی العرف "ہامش الجدیۃ"، او "ضمان الجدیۃ" (وان لم یکن ضمانا  بالمعنی الفقہی) فھذہ الدُفعات  لیست عربونا، وانما ھی امانۃ بید البائع، تجری علیہ احکام الامانات
(فقہ البیوع۔ج:۱، ص:۱۱۹،۲۰)
۲)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 527)
(الوكيل لا يوكل إلا بإذن آمره) لوجود الرضا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 527)
(قوله الوكيل لا يوكل) المراد أنه لا يوكل فيما وكل فيه فيخرج التوكيل بحقوق العقد فيما ترجع الحقوق فيه إلى الوكيل فله التوكيل بلا إذن لكونه أصيلا فيها ولذا لا يملك نهيه عنها وصح توكيل الموكل كما قدمناه بحر.
۳)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 64)
(الأجراء على ضربين: مشترك وخاص، فالأول من يعمل لا لواحد) كالخياط ونحوه (أو يعمل له عملا غير مؤقت) كأن استأجره للخياطة في بيته غير مقيدة بمدة كان أجيرا مشتركا وإن لم يعمل لغيره (أو موقتا بلا تخصيص) كأن استأجره ليرعى غنمه شهرا بدرهم كان مشتركا، إلا أن يقول: ولا ترعى غنم غيري وسيتضح.

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۰۶/جمادی الاولیٰ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب