021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رشوت کے احکام
74865جائز و ناجائزامور کا بیانرشوت کا بیان

سوال

مودبانہ گزارش ہے کہ  مجھے اپنے کاروبار کے حوالے سے ایک مسئلہ ہے، جس کے  بارے میں آپ صاحبان سے اسلامی شریعت کے مطابق  جواب کا طلبگار ہوں۔

عرض یہ ہے کہ میں ایک سرکاری ٹھیکیدار ہوں اور سرکاری دفاتر میں کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ، سی سی ٹی وی کیمرہ  وغیرہ کے   ٹینڈرز کے لیے اپلائی کرتا ہوں،  جس میں اکثر دفاتر میں کام ہونے کے لیے رشوت مانگی جاتی ہے، بسا اوقات ہم حقدار ہوتے ہیں، مگر پھر  بھی رشوت مانگی جاتی ہے اور رشوت   نہ دینے کی صورت میں   وہ کام ہمارے ہاتھ سے چلا جاتاہے، اور بسا اوقات ہم حقدار نہیں ہوتے ، مگر رشوت دے کر وہ کام حاصل کر لیا جاتا ہے، اس کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے۔

1۔۔ ہم نے ایک جگہ ٹینڈر کیا تو  انہوں نے ہم سے 15 فیصد رکھنے کا کہا، اور ہم نے کام کر کے دفتر والوں کو 15 فیصد ادا کر دیا۔

2۔۔ ایک اور جگہ ہم نے پرنٹر ز کا ٹینڈر  کیا تو  دفتر والوں نے ہمیں ٹینڈر سے باہر کرنے کی کوشش کی ، لیکن جب انہیں کوئی کمی نظر نہیں آئی  تو مجھے بلا کر کہا  اسے دوسرا ٹھیکیدار گھر کے لیے دو عدد پرنٹر  دے رہا ہے، چنانچہ اگر دو پرنٹرآپ بھی  مفت میں مجھے دے رہے ہیں تو آپ کو کام ملے گا وگرنہ نہیں۔

3۔۔ بعض اوقات ہم  ٹینڈر کرتے ہیں، اور بعد میں دفتر والے ہم سے  پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں،کہ  نے آپ کے کام  ہونے کے لیے بہت زور ڈالا ہےکہ آپ  کو  کام مل سکے ،وغیرہ۔

(۱)۔۔۔براہ کرم اس سلسلے میں میری اصلاح کریں کہ کیا ایسا کرنے سے میری آمدنی  حرام ہو جاتی  ہے  یا  نہیں، کیونکہ  10 میں سے 8 دفاتر میں  اس طرح رشوت دینی پڑتی ہے،اور اگر رشوت نہ دیں تو کام نہیں چلتا۔

(۲)۔۔۔جس کے   دفتر اور گھر کے اخراجات  تقریبا ایک لاکھ  تک ہوں، اور اس کام کے بغیر اپنے اخراجات پورے نہ کیے جا سکتے ہوں،  اور اس کام سے کمائی حرام ہو جاتی ہو تو   پھر کیا کرنا چاہیے؟ آیا کام چھو ڑ دیں اور کوئی دوسرا کام شروع کریں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

لوگوں کی جان ، مال ، عزت آبرو، دین اور عقل کی مکمل حفاظت کرنا اور  ایک عا دلانہ معاشرہ قائم کرنا  شریعت  کے مقاصد میں  سے ہے، اسی لیے  شریعت نے ایسے تمام امور کو ناجائز ٹھہرایا ہے جو معاشرے  کے منصفانہ   نظام میں بگاڑ کا ذریعہ بن سکیں۔ رشوت  کا لین دین بھی چونکہ معاشرے   کے فطری تواز ن کو بگاڑنے اور  حقوق کی پامالی کا ذریعہ ہے،ا س لیے  شریعت مطہرہ نے  رشوت  کے لین دین کو حرام اور اس کام میں ملوث   تما م افراد(رشوت دینے والے ، رشوت لینے والے اور ان کے بیچ واسطہ بننے والے ) کو گناہگار ، ملعون اور جہنمی قرار دیا ہے۔

البتہ فقہاء کرام نے  تین صورتوں میں مجبوری کی وجہ سے رشوت دینے کو جائز کہاہے، ایک یہ کہ  کسی کی طرف سے جانی نقصان ، ظلم یا ضرر کا اندیشہ ہو تو وہاں اس کے نقصان سے  بچاو کےلیے اسے  رشوت کے طور پر کوئی  مال یا  منفعت دے دینا جائز ہے، دوسری یہ کہ  کسی ثابت شد ہ مالی حق تک وصولی اگر رشوت دیے بغیر   ممکن نہ ہو تو وہاں بھی  اس حق کو پانےکے لیے بطور رشوت  کچھ دے دینا  جائز ہے ، اور تیسری یہ کہ کسی ذمہ دار یا امیر کو محض اس لیے رشوت دینا تا کہ وہ  مساویانہ اور منصفانہ سلوک کرے  تو اس مقصد کے لیے بھی  رشوت دینے کی گنجائش ہے ۔ البتہ رشوت  لینا بہر صورت ناجائز ہے، جس کے جواز کی کوئی صورت ممکن نہیں۔

(۱)۔۔صورت مسئولہ میں رشوت کی ادائیگی ،   جواز کی بیان کردہ  پہلی دو صورتوں میں سے  تو  کسی صورت میں داخل نہیں، کہ یہاں رشوت نہ تو  خود سے کسی ضرر ، یا ظلم کو دور کرنے کے  لیے دی جا رہی ہے اور نہ ہی کسی  ثابت شدہ مالی حق کی وصولی کے لیے ادا کی جارہی ہے،البتہ اگر    کسی ٹینڈر کے لیے صرف  آپ ہی اہل ہوں یا اس ٹینڈر کے لیے دیگر مساوی درجے کے لوگ بھی اہل ہوں ، مگر آپ ان سے زیادہ قابل ترجیح ہوں تو وہاں محض اس لیے رشوت دینا "تا کہ وہ حضرات   ٹینڈر کیلیے  اپلائی کرنے والے  تمام  لوگوں کے درمیان مساویانہ سلوک رکھیں " جواز کی تیسری صورت میں داخل ہے اور اس صورت میں رشوت دینے کی گنجائش ہے۔

لہذا  مسئولہ  صورت میں  محض مساویانہ سلوک رکھنے کےلیے رشوت دینے کے علاوہ دیگر تمام جگہوں پر  رشوت   دینا ناجائز ، حرام اور گناہ کبیرہ ہے،جس سے بچنا بہر حال لازم ہے۔ البتہ رشوت  سے حاصل کیے گئے ٹینڈر کو اگر ایمان داری سے مکمل کر لیا  جائے تو اس(صورت میں چونکہ جائز چیزوں کی خریدو فروخت کا معاملہ  ہوا ہے لہذا اس ) سے حاصل شدہ آمدنی اور رقم حلال ہو گی، اور محض رشوت دے دینے سے آمدنی حرام نہیں ہو جائیگی ۔

(۲)۔۔سوال میں بیان کردہ صورت حال کے مطابق چونکہ     اس کاروبارکی اکثرصورتوں میں ناجائز طور پر رشوت دے کر گناہ  کبیرہ  کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے،لہذا  ضروری ہے کہ  کوئی  ایسا راستہ اپنایا   جائے جس میں اس طرح کے گناہ کا ارتکاب  لازم نہ آتا ہو، اور صرف  وہی   ٹینڈر حاصل کیے جائیں ، جن میں  رشوۃ دینے کی نوبت نہ آتی ہو اور اگر  رشوۃ دیے  بغیر اس کاروبار میں چلنا ممکن  نہ ہو تو  پھر  فوری طور پر کسی ایسے جائز اور حلال  کاروبار کی تلاش شروع کی جائے جو خلاف شرع امور سے بالکل پاک ہو، اور اس طرح کے کاروبار کےملتے ہی  رشوۃ کی بنیاد پر چلنے والے کاروبار کو مکمل طور پر چھوڑ دیا جائے۔

حوالہ جات
[البقرة: 188]
{ وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ}
المبسوط (16/ 279)
 وقال صلى الله عليه وسلم { الراشي والمرتشي والرايش في النار ، ولعن الله من أعان الظلمة ، أو كتب لهم }
سنن الترمذي ت بشار (3/ 15)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالمُرْتَشِيَ فِي الحُكْمِ.
مسند البزار = البحر الزخار (3/ 247)
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سِكِّينٍ، قَالَ: نا يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الْمَدِينِيُّ، قَالَ: نا الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي فِي النَّارِ»
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 285)
الرشوة بكسر الراء ما يعطيه الشخص للحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 285)
وفي الخانية الرشوة على وجوه أربعة منها ما هو حرام من الجانبين، وذلك في موضعين: أحدهما إذا تقلد القضاء بالرشوة حرم على القاضي والآخذ وفي صلح المعراج تجوز المصانعة للأوصياء في أموال اليتامى، وبه يفتى ثم قال من الرشوة المحرمة على الآخذ دون الدافع ما يأخذه الشاعر وفي وصايا الخانية قالوا بذل المال لاستخلاص حق له على آخر رشوة. الثاني إذا دفع الرشوة إلى القاضي ليقضي له حرم من الجانبين سواء كان القضاء بحق أو بغير حق، ومنها إذا دفع الرشوة خوفا على نفسه أو ماله فهو حرام على الآخذ غير حرام على الدافع، وكذا إذا طمع في ماله فرشاه ببعض المال ومنها إذا دفع الرشوة ليسوي أمره عند السلطان حل له الدفع ولا يحل للآخذ أن يأخذ ولم أر قسما يحل الأخذ فيه دون الدفع.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 362)
وفي المصباح الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد....وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة.الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه.الثالث: أخذ المال ليسوي أمره عند السلطان دفعا للضرر أو جلبا للنفع وهو حرام على الآخذ فقط .....الرابع: ما يدفع لدفع الخوف من المدفوع إليه على نفسه أو ماله حلال للدافع حرام على الآخذ؛ لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ولا يجوز أخذ المال ليفعل الواجب، اهـ ما في الفتح ملخصا.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۵ جمادی الاولی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب