021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ترکہ کا مکان قرضوں کے لیے بیچنے کے بعد ایک وارث کا دعویٰ
74775میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

حاصلِ سوال:

تقریبا 40 سال قبل ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا۔ ترکہ میں انہوں نے پانچ مرلہ کا ایک مکان، سونے کا ٹیکا اور نتھ چھوڑا۔ مکان پر ہاؤس بلڈنگ کاتیس ہزار روپے قرض باقی تھا جو والد صاحب نے مکان بنانے کے لیے خود اپنی زندگی میں لیا تھا، والد صاحب کی وفات کے بعد ہم نے ماموؤں سے ستر ہزار روپے قرض لے کر مکان کے اوپر ایک منزل بنائی، یہ منزل ہم نے سب کے لیے بنائی تھی۔ یہ دونوں قرضے ہم چار بھائیوں نے اپنی طرف سے اپنی مشترکہ کمائی سے ادا کیے؛ کیونکہ اس وقت ہم ہی کما رہے تھے۔

ہم کل 5 بھائی اور 4 بہنیں ہیں، والد صاحب کی وفات کے وقت ہمارے بڑے بھائی کی عمر 19 سال تھی، اور سب سے چھوٹے بھائی کی عمر 9 ماہ تھی۔  بڑے بھائیوں نے محنت کر کے چھوٹے بھائی اور بہنوں کی پرورش کی اور بہنوں کی شادیاں بھی کرائیں۔ اتنے عرصے میں والدہ بیمار ہوئیں تو ان کی بیماری میں تقریبا ڈھائی لاکھ روپے خرچ ہوئے، اس وقت ہمارے پاس پیسے نہیں تھے تو ادھر ادھر سے قرض لے کر یہ ڈھائی لاکھ قرض لے کر ان کا علاج کیا گیا۔ پھر والدہ نے وصیت کی کہ یہ قرض اس گھر کو بیچ کر ادا کیا جائے۔ پھر والدہ کا انتقال ہوا، انتقال کے وقت ان کے والدین زندہ تھے۔ والدہ کے انتقال کے بعد ان کی وصیت کے مطابق گھر کو تقریبا ساڑھے چار لاکھ میں بیچا گیا، جس میں سے چار بہنوں کو تیس، تیس ہزار روپے فی بہن ملے، ڈھائی لاکھ والدہ کے علاج کے لیے لیے گئے قرض میں دئیے، اور باقی اسی ہزار روپے دو بہنوں اور دو بھائیوں کی شادیوں میں خرچ ہوئے۔ یہ مکان ہم نے تقریبا 2002 یا 2003 میں بیچا تھا۔  

اب سوال یہ ہے کہ پراپرٹی میں کسی کا کوئی حصہ بنتا ہے؟ نیز اس پراپرٹی کا کتنا کتنا حصہ تمام بہن بھائیوں کے حصے میں آتا ہے؟ تمام بھائی متفق ہیں کہ قرض ادا ہونے کے بعد کچھ نہیں بچا، لیکن سب سے چھوٹے بھائی کا کہنا ہے کہ میں اس جائیداد میں حصے کا حق دار ہوں، اور مجھے اس مکان کی آج کی قیمت کے حساب سے اس مکان میں سے اپنا حصہ دیا جائے۔ جبکہ مکان بیچتے وقت سب سے دستخط لیے گئے تھے،

اس چھوٹے بھائی سے بھی دستخط لیے گئے تھے،اور یہ اس وقت بالغ تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ مجھے بڑے بھائی نے دستخط کے لیے کہا، اس لیے میں نے کردیے تھے۔

والد صاحب نے ترکہ میں سونے کا جو ٹیکہ اور نتھ چھوڑا تھا وہ دونوں کم از کم ایک تولہ کے ہوں گے۔ وہ ورثا میں تقسیم نہیں ہوئے، بلکہ جس بھائی کی شادی ہوتی تھی، اس کو دیتے تھے۔ پھر جب اگلے بھائی کی شادی ہوتی تو اس کو دیتے تھے۔ چنانچہ اب وہ سب سے چھوٹے بھائی کے پاس ہے، کیونکہ اس کی شادی سب سے آخر میں ہوئی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے والد صاحب نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں مذکورہ مکان، سونے کے ٹیکہ اور نتھ سمیت جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ ان کا قرض تھا، تو وہ سب ان کا ترکہ ہے۔ ترکہ سے چار حقوق کا تعلق ہوتا ہے، سب سے پہلے اس سے میت کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جاتے ہیں، پھر دوسرے نمبر پر میت کے ذمے واجب الادا قرضے نکالے جاتے ہیں، البتہ اگر یہ دونوں کام کوئی اپنی طرف سے بطورِ احسان کردے تو پھر ترکہ سے ان کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ صورتِ مسئولہ میں چونکہ والد صاحب کے ذمے واجب الادا تیس ہزار قرض آپ چار بھائیوں نے اپنی مشترکہ کمائی سے بطورِ احسان کے ادا کیا ہے، اس لیے وہ قرض ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا۔ ترکہ سے متعلق تیسرا حق "وصیت" ہے، یعنی اگر میت نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی حصے تک اس وصیت کو پورا کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد باقی ماندہ ترکہ ورثا میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

 والد صاحب کے ترکہ میں تمام ورثا کے حق کی تفصیل یہ ہے کہ کل ترکہ کو سولہ (16) حصوں میں تقسیم کیا جائے، اس میں سے دو (2) حصے مرحوم کی بیوہ یعنی آپ کی والدہ کو ملیں گے، دو، دو (2، 2) حصے پانچ بیٹوں میں سے ہر بیٹے کو، اور ایک، ایک (1، 1) حصہ چار بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو ملے گا۔ اس تفصیل کے مطابق مکان کی ساڑھے چار لاکھ رقم میں مرحوم کی بیوہ اور پانچ بیٹوں میں سے ہر بیٹے کا حق 64,285.714 روپے، جبکہ چار بیٹیوں میں سے ہر ایک کا حق 32,142.857 روپے بنتا ہے۔

مکان کی رقم میں سے ہر وارث کا حصہ معلوم ہونے کے بعد اب آپ کی والدہ کی وصیت کا حکم یہ ہے کہ چونکہ ڈھائی لاکھ روپیہ ان کے علاج پر خرچ ہوا تھا، اس لیے ان کی وصیت ان کے حصے کی حد تک تو معتبر تھی، لہذا ان کے حصے کی 64,285.714 رقم قرض میں دینا درست تھا۔ لیکن باقی ورثا کے حصوں میں والدہ کی یہ وصیت ان کی رضامندی پر موقوف تھی۔ لہذا آپ چار بڑے بھائیوں کا اپنے حصے کی رقم اپنی رضامندی سے والدہ کے علاج کے لیے لیے گئے قرض میں دینا اور دو بھائی، بہنوں کی شادیوں میں خرچ کرنا بھی درست تھا، آپ چاروں کو اس کا ثواب ملے گا۔ البتہ چھوٹا بھائی اگر اپنے حصے کی رقم قرض میں دینے اور دو بھائیوں اور دو بہنوں کی شادیوں میں خرچ کرنے پر راضی نہیں تھا، اس نے دستخظ صرف بیچنے کے لیے کیے تھے تواس کا اپنے حق کا مطالبہ درست ہے، لیکن آج کے حساب سے قیمت کا مطالبہ کرنا جائز نہیں، بلکہ اسے مکان کی فروخت کے وقت کے حساب سے 64,285.714 روپے ملیں گے۔  

جہاں تک بہنوں کا تعلق ہے تو ان کو ان کے حصے سے صرف 2,142.857 روپے کم ملے ہیں۔ اگر وہ اپنی اس قدر رقم والدہ کے علاج کے لیے لیے گئے قرض اور دو بھائیوں اور دو بہنوں کی شادی میں خرچ کرنے پر راضی تھیں تو ان کا یہ حصہ خرچ کرنا بھی ٹھیک تھا، اور اگر وہ اس پر راضی نہیں تھیں تو انہیں اس قدر رقم دینا لازم ہے۔

اہم وضاحت: واضح رہے کہ والد صاحب کا چھوڑا ہوا سونے کا ٹیکا اور نتھ بھی ان کے ترکہ کا حصہ ہے، اسے والد صاحب کے تمام ورثا (بشمول آپ کی والدہ مرحومہ اور اس چھوٹے بھائی) میں تقسیم کرنا لازم ہے؛ لہٰذا چھوٹے بھائی پر لازم ہے کہ وہ سونے کا ٹیکہ اور نتھ واپس کردیں۔ پھر چونکہ اس میں آپ کی والدہ مرحومہ کا بھی حصہ بنتا ہے، اور آپ کی والدہ مرحومہ کے انتقال کے وقت ان کے والدین زندہ تھے، اس لیے والدہ مرحومہ کے حصے میں سونے کے ٹیکے اور نتھ میں سے جتنا حصہ آئے گا، اس میں آپ نو بہن بھائیوں کے ساتھ آپ کے نانا، اور نانی کا بھی حصہ ہوگا، لیکن اب چونکہ آپ کے نانا اور نانی کا بھی انتقال ہوچکا ہے؛ اس لیے ان کا حصہ ان کے ورثا کو ملے گا۔     

حوالہ جات
.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

6/جمادی الاولی /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب