021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
باغات کی خریدفروخت سے متعلق فتوی پر اشکال کا جواب( پھول آنے پر پھولوں کی خریدوفروخت جائز ہے)
74746خرید و فروخت کے احکام دین )معاوضہ جو کسی عقدکے نتیجے میں لازم ہوا(کی خرید و فروخت

سوال

دارالافتاء جامعة الرشید سے باغات کی خریدوفروخت سے متعلق ایک فتوی لیا تھا، جس میں لکھا گیا تھا کہ پھول آنے پر پھولوں کی خریدوفروخت جائز ہے، اس پر سوال یہ ہے کہ خریدنے والے اور بیچنے والے سب پھلوں کی خریدوفروخت کرتے ہیں، نہ کہ پھولوں کی، ہم نے آج تک  نہ سنا  اورنہ دیکھا کہ کوئی پھول یعنی بُور کی بیع کر رہا ہو، پھولوں کا نام نہیں لیا جاتا، بلکہ مقصود پھل کی ہی خریدوفروخت ہوتی ہے اور پھلوں کی ہی لاکھوں روپے  قیمت ادا کی جاتی ہے، ایسی صورت میں معدوم چیزکی بیع ہوتی ہے، تو سوال یہ ہے کہ جب بیع کے وقت پھولوں کی تصریح نہ کی جائے تو کیا شریعت کی روشنی میں یہ  خریدوفروخت جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پھول آنے پر باغات کی خریدوفروخت کرناجائز ہے، کیونکہ پھول خود قابلِ انتفاع ہیں اور قابلِ انتفاع چیز کی خریدوفروخت جائز ہے، جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کا مقصدپھل کی خریدوفروخت کرنا ہوتا ہے اور قیمت بھی اسی حساب سے طے کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں پھولوں کی خریدوفروخت کیسے قرار دی جائے گی؟ تواس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ اس کی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت:باغات کی خریدوفروخت کرنے والے بعض حضرات سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جو تاجرصرف ایک سال کے لیے باغ خریدتے ہیں ان کے درمیان عام طور پر دستور یہ ہے کہ وہ اس وقت باغ کی خریدوفروخت کرتے ہیں جب پھول نکلنے کے ساتھ ساتھ کچھ پھل بھی نکل چکا ہوتا ہے، اگرچہ وہ مقدار میں کم اور جسامت میں چھوٹا  ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ باغ کے پھول بالتدریج یعنی آہستہ آہستہ نکلتے ہیں، تو شروع میں کچھ پھول نکلنے پر باغ سے اترنے والے پھل کی مجموعی مقدار کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، اس لیے جب باغ مکمل پھولوں سے بھر جاتا ہے تو خریدوفروخت ہوتی ہے،جبکہ اس وقت شروع میں نکلنے والے پھولوں کے ساتھ پھل بھی نکل چکا ہوتا ہے اورپھل نکلنے کی صورت میں علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے علامہ شمس الائمہ  حلوانی اور علامہ فضلی رحمہ اللہ کے حوالے سے خریدوفروخت کے جواز کا قول نقل کیا ہے اور انہوں نے اس صورت کے جواز کی علت بیان کرتےہوئےموجود پھل کو اصل اور بعد میں پیدا ہونے والے پھلوں کو تابع قرار دیا ہے، امام ابن الہمام رحمہ اللہ کی اس عبارت کو علامہ ابن نجیم اور علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے اور امام ابن الہمام رحمہ اللہ کی طرح ان حضرات کا رجحان بھی جواز کی طرف معلوم ہوتا ہے۔مجلة الاحکام العدلیة میں بھی کچھ پھل ظاہر ہونے کی صورت میں جواز کا حکم لگایا گیا ہے اور اس کی شرح میں علامہ خالد اتاسی رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ مجلہ الاحکام کی عبارت کا تقاضا یہ ہے کہ اگرچہ تھوڑی مقدار میں پھل ظاہر ہوں تو بھی شرعاً  بیع درست شمار ہو گي۔(ديكھيے عبارت:4اور5)

دوسری صورت: اگر خریدوفروخت کے وقت بالفرض پھل بالکل ظاہرنہ ہوں، بلکہ صرف پھول ہوں، اگرچہ ایسا بہت کم ہوتا ہے تو ایسی صورت کے بارے میں عرض یہ ہے کہ مبیع یعنی بیچی گئی چیز کی تعیین کے سلسلے میں فقہائے کرام رحمہم اللہ نے دو صورتیں بیان کی ہیں:

پہلی صورت:چیزکے اوصاف بیان کرنے کے ذریعہ تعیین کرنا، یہ عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب چیز غائب یعنی خریدار کے سامنے موجود نہ ہو۔

دوسری صورت: اشارہ کے ذریعہ تعیین کرنا، یہ عام طور پر اس وقت ہوتا ہے جب مبیع خریدوفروخت کی مجلس میں موجود ہو۔

مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں مبیع معلوم ہونے کی وجہ سے شرعاً خریدوفروخت درست شمار ہوتی ہے، لہذا پھل پیدا نہ ہونے کی صورت میں فریقین کی ذمہ داری ہے کہ مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ذریعہ پھولوں کی تعیین اور تصریح کریں، تاکہ فریقین کے علم میں ہو کہ یہ پھولوں کی خریدفروخت ہو رہی ہے۔

اس کے علاوہ پھولوں کی قیمت زیادہ وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ یہ عام پھول نہیں ہوتے، بلکہ یہ خاص اور قیمتی پھول ہوتے ہیں جو مستقبل میں عمدہ پھل پیدا ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں، اس لیے ان پھولوں کی قیمت زیادہ لینا جائز ہے۔باقی یہ بات بھی قابلِ اشکال نہیں ہے کہ پھولوں کی خریدوفروخت سے پھول نہیں، بلکہ پھل مقصود ہوتا ہے، کیونکہ شریعت میں مقاصد کا اعتبار نہیں ہوتا، بلکہ اس معاملےکی شرائط اور ارکان کو مدِ نظر رکھ کر شرعاً اس کی صحت یا فساد کا فیصلہ کیا جاتا ہے،مثلا  اگر کوئی شخص انگور خریدے اور اس کا مقصد شراب بنانا ہو تو اس مقصد کی وجہ سے معاملہ ناجائز نہیں ہو گا، بلکہ خریدوفروخت کے وقت بیچی گئی چیز اور معاملے کی شرائط کو سامنے رکھ کر اس معاملے کی صحت یا فساد  کا حکم لگایا جائے گا۔

حوالہ جات
1۔ فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 291) دار الفكر،بيروت:
(ولو أثمرت بعد القبض يشتركان فيه للاختلاط، والقول قول المشتري في مقداره) مع يمينه (لأنه في يده وكذا في) بيع (الباذنجان والبطيخ) إذا حدث بعد القبض خروج بعضها اشتركا لما ذكرنا. وكان الحلواني يفتي بجوازه في الكل، وزعم أنه مروي عن أصحابنا، وكذا حكي عن الإمام الفضلي وكان يقول: الموجود وقت العقد أصل وما يحدث تبع نقله شمس الأئمة عنه ولم يقيده عنه بكون الموجود وقت العقد يكون أكثر بل قال عنه: اجعل الموجود أصلا في العقد وما يحدث بعد ذلك تبعا وقال: استحسن فيه لتعامل الناس، فإنهم تعاملوا بيع ثمار الكرم بهذه الصفة، ولهم في ذلك عادة ظاهرة وفي نزع الناس من عادتهم حرج، وقد رأيت رواية في نحو هذا عن محمد - رحمه الله - وهو بيع الورد على الأشجار فإن الورد متلاحق، ثم جوز البيع في الكل بهذا الطريق وهو قول مالك - رحمه الله -
2۔الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 555) دار الفكر-بيروت:
( (قوله: ظهر صلاحها أو لا) قال: في الفتح لا خلاف في عدم جواز بيع الثمار قبل أن تظهر ولا في عدم جوازه بعد الظهور قبل بدو الصلاح، بشرط الترك ولا في جوازه قبل بدو الصلاح بشرط القطع فيما ينتفع به، ولا في الجواز بعد بدو الصلاح، لكن بدو الصلاح عندنا أن تؤمن العاهة والفساد، وعند الشافعي هو ظهور النضج وبدو الحلاوة والخلاف إنما هو في بيعها قبل بدو الصلاح على الخلاف في معناه، لا بشرط القطع فعند الشافعي ومالك وأحمد لا يجوز، وعندنا إن كان بحال لا ينتفع به في الأكل، ولا في علف الدواب فيه خلاف بين المشايخ قيل: لا يجوز ونسبه قاضي خان لعامة مشايخنا، والصحيح أنه يجوز؛ لأنه مال منتفع به في ثاني الحال إن لم يكن منتفعا به في الحال، والحيلة في جوازه باتفاق المشايخ أن يبيع الكمثرى أول ما تخرج مع أوراق الشجر فيجوز فيها تبعا للأوراق كأنه ورق كله، وإن كان بحيث ينتفع به ولو علفا للدواب فالبيع جائز باتفاق أهل المذهب إذا باع بشرط القطع أو مطلقا. اهـ. (قوله: لا يصح في ظاهر المذهب) قال: في الفتح: ولو اشتراها مطلقا أي بلا شرط قطع أو ترك فأثمرت ثمرا آخر قبل القبض فسد البيع؛ لأنه لا يمكنه تسليم المبيع لتعذر التمييز فأشبه هلاكه قبل التسليم، ولو أثمرت بعد القبض يشتركان فيه للاختلاط، والقول قول المشتري في مقداره مع يمينه؛ لأنه في يده وكذا في بيع الباذنجان والبطيخ إذا حدث بعد القبض خروج بعضها اشتركا كما ذكرنا. اهـ.
ومقتضاه أنها لو أثمرت بعد القبض يصح البيع في الموجود وقت البيع، فإطلاق المصنف تبعا للزيلعي محمول على ما إذا باع الموجود والمعدوم كما يفيده ما يأتي عن الحلواني، ما ذكره في الفتح من التفصيل محمول على ما إذا باع الموجود فقط، وعلى هذا فقول الفتح عقب ما قدمناه عنه، وكان الحلواني يفتي بجوازه في الكل إلخ، لا يناسب التفصيل الذي ذكره؛ لأنه لا وجه لجواز البيع في الكل إذا وقع البيع على الموجود فقط فاغتنم هذا التحرير. (قوله: وأفتى الحلواني بالجواز) وزعم أنه مروي عن أصحابنا وكذا حكى عن الإمام الفضلي، وقال: استحسن فيه لتعامل الناس، وفي نزع الناس عن عادتهم حرج قال: في الفتح: وقد رأيت رواية في نحو هذا عن محمد في بيع الورد على الأشجار فإن الورد متلاحق، وجوز البيع في الكل وهو قول مالك. اهـ. قال: الزيلعي وقال: شمس الأئمة السرخسي: والأصح أنه لا يجوز؛ لأن المصير إلى مثل هذه الطريقة عند تحقق الضرورة ولا ضرورة هنا؛ لأنه يمكنه أن يبيع الأصول على ما بينا أو يشتري الموجود ببعض الثمن، ويؤخر العقد في الباقي إلى وقت وجوده أو يشتري الموجود بجميع الثمن: ويبيح له الانتفاع بما يحدث منه، فيحصل مقصودهما بهذا الطريق، فلا ضرورة إلى تجويز العقد في المعدوم مصادما للنص، وهو ما روي «أنه - عليه الصلاة والسلام - نهى عن بيع ما ليس عند الإنسان ورخص في السلم» اهـ.
قلت: لكن لا يخفى تحقق الضرورة في زماننا ولا سيما في مثل دمشق الشام كثيرة الأشجار والثمار فإنه لغلبة الجهل على الناس لا يمكن إلزامهم بالتخلص بأحد الطرق المذكورة، وإن أمكن ذلك بالنسبة إلى بعض أفراد الناس لا يمكن بالنسبة إلى عامتهم وفي نزعهم عن إذ لا تباع إلا كذلك، والنبي - صلى الله عليه وسلم - إنما رخص في السلم للضرورة مع أنه بيع المعدوم، فحيث تحققت الضرورة هنا أيضا أمكن إلحاقه بالسلم بطريق الدلالة، فلم يكن مصادما للنص، فلذا جعلوه من الاستحسان؛ لأن القياس عدم الجواز، وظاهر كلام الفتح الميل إلى الجواز ولذا أورد له الرواية عن محمد بل تقدم أن الحلواني رواه عن أصحابنا وما ضاق الأمر إلا اتسع ولا يخفى أن هذا مسوغ للعدول عن ظاهر الرواية كما يعلم من رسالتنا المسماة نشر العرف في بناء بعض الأحكام على العرف فراجعها. (قوله: لو الخارج أكثر) ذكر في البحر عن الفتح أن ما نقله شمس الأئمة عن الإمام الفضلي لم يقيده عنه بكون الموجود وقت العقد أكثر بل قال: عنه أجعل الموجود أصلا، وما يحدث بعد ذلك تبعا.
3۔البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 325) دار الكتاب    الإسلامي:
إذا حدث بعد القبض خروج بعضها اشتركا وكان الحلواني يفتي بجوازه في الكل وزعم أنه مروي  عن أصحابنا وهكذا حكي عن الإمام الفضلي وكان يقول الموجود وقت العقد أصل وما يحدث تبع له نقله شمس الأئمة عنه، ولم يقيده عنه بكون الموجود وقت العقد يكون أكثر بل قال عنه اجعل الموجود أصلا في العقد وما يحدث بعد ذلك تبعا، وقال استحسن فيه لتعامل الناس، فإنهم تعاملوا بيع ثمار الكرم بهذه الصفة ولهم في ذلك عادة ظاهرة وفي نزع الناس عن عاداتهم حرج، وقد رأيت في هذا رواية عن محمد وهو في بيع الورد على الأشجار، فإن الورد متلاحق، ثم جوز المبيع في الكل بهذا الطريق وهو قول مالك۔
4۔مجلة الأحكام العدلية (ص: 42) فصل: فيما يجوز بيعه ومالا يجوز:
(المادة 207) ما تتلاحق أفراده يعني أن لا يبرز دفعة واحدة بل شيئا بعد شيء كالفواكه والأزهار والورق والخضراوات إذا كان برز بعضها يصح بيع ما سيبرز مع ما برز تبعا له بصفقة واحدة.
5۔شرح المجلة للخالد الإتاسي (ج:1ص:99)مكتبة رشيدية:
إن بيع الباذنجان والبطيخ وأشباههما  له حكم بيع الثمر الذي تتلاحق أفراده يعني أنه صحيح في الموجود، وفي المعدوم تبعا للموجود، على ماأفتى به شمس الأئمة الحلواني ومشت عليه هذه المجلة، ولفظ الخضروات في هذه المادة يشير إلى ذلك۔ لكن لا يخفى أن المعدوم المتظر حدوثه من ذلك لا يكون إلا أكثر من الموجود بأضعاف وقدمنا عن جامع الفصولين وغيره أن الأكثر لا يتبع الأقل خلافا لما قدمنا عن البحر تبعا لصاحب الفتح من أن الحلواني لم يقيده بكون الموجود أكثر۔
6۔فتح القدير للكمال ابن الهمام (6/ 259) دار الفكر،بیروت:                             
(قوله والأعواض المشار إليها) سواء كانت مبيعات كالحبوب والثياب أو أثمانا كالدراهم والدنانير (لا يحتاج إلى معرفة مقدارها في جواز البيع) فإذا قال: بعتك هذه الصبرة من الحنطة أو هذه الكورجة من الأرز والشاشات وهي مجهولة العدد بهذه الدراهم التي في يدك وهي مرئية له فقبل جاز ولزم؛ لأن الباقي جهالة الوصف: يعني القدر وهو لا يضر، إذ لا يمنع من التسليم والتسلم لتعجله كجهالة القيمة لا تمنع الصحة.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

4/جمادی الاولیٰ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب