021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جائیداد پر ناجائز طور پر قابض شخص کو تصرف سے روکنا
74837غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سید موسی جان نے 1982ء میں بتوسط سید عبد الرزاق، حاجی رحمت اللہ دمڑ سے کلی گل محمد سیدان میں سینتالیس ہزار فٹ زمین جو کہ خسرہ نمبر 1472/302 ہے خریدی اور حاجی رحمت اللہ نے تمام کاغذات (انتقال اور فرد) سید موسی جان کو دے دیا، لیکن موسی جان نے پیمائش نہیں کی اور عبد الرزاق کے بتائے ہوئے نشان پر دیوار تعمیر کردی۔ اس کے بعد عبد الرزاق کا انتقال 1991ء میں ہوا ور تمام اختیارات عبد الرزاق کے بیٹے سید عبد الطیف کو ملے۔ سید عبد الطیف نے تمام جائیداد چچازاد بیٹوں میں یکساں تقسیم کردی۔ سید موسی جان کے پڑوس میں جو زمین تھی وہ سید عبد الباری وغیرہ کے حصے میں آئی۔ سید عبد الباری نے یہ زمین(خسرہ نمبر 1473/302 ) سن 2001ء میں سید عبد المنان کو فروخت کردی اور اس کے ساتھ سید موسی جان کی دس ہزار سات سو چھیالیس فٹ بھی فروخت کردی۔ عبد المنان نے خریداری کے بعد سید موسی جان کی زمین پر بھی تعمیر کردی اور تقریباً آٹھ ہزار فٹ خالی ہے۔ سید موسی جان جب 2011ء میں اپنی زمین خسرہ نمبر 1472/302 کی پیمائش کی تو زمین تقریباً دس ہزار سات سو چھالیس فٹ کم ہوئی۔ پھر موسی جان نے فٹ واری نے جب کاغذات چیک کیے، تو بتایا کہ زمین پڑوس میں طولاً واقع ہے اور کچھ زمین پر عبد المنان نے تعمیر کی ہے، بقیہ زمین خالی پڑی ہوئی ہے اور عبد المنان کے بھائی اس پر تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جبکہ سید موسی جان نے سید عبد الطیف سے کہا کہ آپ لوگوں نے میری زمین کو عبد المنان کو فروخت کیا ہے، مجھے میری زمین واپس  کی جائے، جس پر عبد الطیف نے کہا کہ آپ تھوڑا انتظار کریں میں زمین واپس کر دوں گا۔ اسی عرصے میں کئی سال گزر گئے اور عبد الطیف کا انتقال ہوگیا۔ عبد الطیف کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے اور بھائی سمیت کزن انکاری ہوگئے، جس کے بعد سید موسی جان نے سید عبد المنان کو خسرہ نمبر 1472/302 پر مزید تعمیر سے روک دیا، جبکہ عبد المنان وہ زمین سید موسی جان کو دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اب پوچھنا ہے کہ سید موسی جان کو کیا یہ حق حاصل ہے کہ وہ عبد المنان اور ان کے بھائیوں کو زمین پر تعمیر سے روکے اور اپنی زمین 1472/302 کا عبد المنان اور ان کے بھائیوں سے مطالبہ کرے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر دستاویزی ثبوتوں سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ مذکورہ زمین سید موسی جان پہلے خرید چکا ہے، اگرچہ اس نے اس زمین پر قبضہ اور تعمیر وغیرہ نہیں کی تو اب کسی اور کا اس کو فروخت کرنا بھی درست نہیں اور نہ ہی خریدار کے لیے اس پر تعمیر کرنا شرعاً جائز ہے، البتہ فریق ثانی کو اپنے پیسے واپس لینے کا حق ہے۔

حوالہ جات
قال العلامۃ المرغیناناني رحمۃ اللہ:
قال (ومن غصب أرضا فغرس فيها أو بنى قيل لها قلع البناء والغرس وردها) لقوله - عليه الصلاة والسلام - ليس لعرق ظالم حق، ولأن ملك صاحب الأرض باق، فإن الأرض لم تصر مستهلكة والغصب لا يتحقق فيها، ولا بد للملك من سبب فيؤمر الشاغل بتفريغها، كما إذا شغل ظرف غيره بطعامه (فإن كانت الأرض تنقص بقلع ذلك فللمالك أن يضمن له قيمة البناء والغرس مقلوعا ويكونان له) ؛ لأن فيه نظرا لهما ودفع الضرر عنهما. وقوله قيمته مقلوعا معناه قيمة بناء أو شجر يؤمر بقلعه؛ لأن حقه فيه، إذ لا قرار له فيه فتقوم الأرض بدون الشجر والبناء وتقوم وبها شجر أو بناء، لصاحب الأرض أن يأمره بقلعه فيضمن فضل ما بينهما. ( الھدایۃ: 3/343)
قال العلامۃ الکاساني رحمۃ اللہ:
وعلى هذا الاختلاف إذا غصب عقارا فجاء إنسان فأتلفه فالضمان على المتلف عندهما؛ لأن الغصب لا يتحقق في العقار فيعتبر الإتلاف، وعند محمد يتحقق الغصب فيه فيتخير المالك، فإن اختار تضمين الغاصب فالغاصب يرجع بالضمان على المتلف، وإن اختار تضمين المتلف لا يرجع على أحد؛ لأنه ضمن بفعل نفسه. (بدائع الصنائع: 7/146)

محمد ابراہیم شیخا

دار الافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

7/جمادی الاولی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ابراہیم شیخا بن محمد فاروق شیخا

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب