021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کوکنگ آئل کے کاروبار میں قبضہ سے قبل خریدوفروخت کی صورتیں
74931خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

ہمارا تعلق کوکنگ آئل کے کاروبار سے ہے ،  بازار میں رائج مختلف طریقوں کا حکم معلوم کرنا مقصود ہے، بنیادی طور پر ہمارے ہاں تین طبقات ہیں :

1- امپوٹر یا آئل ریفائنریز جو پام آئل یا کوکنگ آئل بیچتی  ہیں ۔

2- آئل ڈپو یا گھی ملز جو بازار سے پام آئل یاکوکنگ آئل خریدتی ہیں ۔

3 - مذکورہ بالا دو طبقوں کے در میان مڈل مین (Middle Man) تا جر ہوتے ہیں ۔

 ان میں سے سب سے پہلے مڈل مین جو معاملات کرتے ہیں ان سے متعلقہ امور ذکر کیے جاتے ہیں :

(الف) مڈل مین امپوٹر سے مال خریدتے ہیں اور پھر گھی مل یا آئل ڈپو و الےكوفروخت کرتے ہیں ۔ مڈل مین کے پاس مال رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی،وہ جب امپوٹر سے مال خریدتے ہیں تو وہ مال امپوٹر کے پاس ہی رہتا ہے ۔ اسی حال میں مڈل مین اس کو فروخت کر دیتے ہیں پھر مال کی ڈیلیوری اس طرح ہوتی ہے کہ مڈل مین جب گھی مل کو سودا بیچ دیتا ہے تو گھی مل اپنے کسی ٹرانسپورٹر سے آئل ٹینکر کرایہ پر لے کر ٹریڈر سے مال کا مطالبہ کرتے ہیں، ٹریڈر حضرات اس ٹرانسپورٹ کو امپوٹر کے آئل ٹرمینل سے بھیج دیتے ہیں، جہاں امپوٹر کا مال رکھا ہے اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا مال اس گاڑی والے کو دے دیں ۔ یوں امپوٹر کی طرف سے تاجر کا مال اس گاڑی میں لوڈ ہوتا ہے اور تاجر اپنے پاس لوڈ کر لیتے ہیں کہ فلاں امپوٹر سے اتنا مال وصول ہو گیا اور فلاں گاہک جو گھی مل والا ہے اس کو اتنامال ڈیلیور ہو گیا ۔

واضح رہے کہ مڈل مین ٹریڈرنے اس پورے عمل میں اس مال پر حسی قبضہ تو کیا ہی نہیں اور نہ ہی اس  کی جانب کسی مرحلے میں اس مال کا ضمان منتقل ہواکہ جس کے نتیجے میں مال کی ہلاکت کی صورت میں مڈل مین تا جر کا نقصان شمار ہو ،البتہ تا جر کے نام سے ، امپوٹر تحریر دے دیتا ہے کہ فلاں تاجر کو اتنا مال دے دیا جائے اب وہ تاجرخود گاڑیاں لگوا کر اسے اٹھوالے اور کہیں اتروا دے یا اپنے ہی کسی گاہک کومال بیچ کر اسی کی گاڑیوں میں مال لوڈ کر والے ۔

( ب ) اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ امپورٹر سے پہلے ایک تاجر مال خریدتا ہے اور دوسرے تاجر کو سودا فروخت کر دیتا ہے، پھر کبھی یہ دوسرا تاجر بھی اپنا نفع رکھ کر کسی تیسرے تاجر کو سودا بیچ دیتا ہے پھر یہ سلسلہ چار ، پانچ ، چھ تاجروں میں بھی چلتا ہے پھر آخری تاجر کسی گھی مل یا آئل ڈ پو والے کو بیچ دیتا ہے ۔

اب گھی مل والا اپنے مال کی ڈیلیوری کا تاجر سےتقاضہ کرتا ہے تو یہ آخری تاجر اپنے بائع تاجر سے ڈیلیوری کا تقاضہ کرتا ہے اسی طرح امپورٹر تک مال کے حوالے ہوتے رہتے ہیں ،بالآخر آئل ڈپو یاگھی مل والے کی گاڑی امپوٹر کے ٹرمینل پر جاتی ہے اور وہ مال لوڈ کر دیا جاتا ہے اس طرح درمیان کے تمام تاجروں کا سودا مکمل ہو جاتا ہے، مثلاً:

امپوٹر نے زید کو بیچا ، زید نے عمر کو بیچا ، عمرنے بکر کو بیچا، بکر نے خالد کو بیچا ۔ خالد نے گاڑی بھیجی اور بکر سے مال کا مطالبہ کیا ، بکر نے کہا کہ یہ مال عمر سے لے لو جب عمر سے مال مانگا گیا تو اس نے کہا کہ یہ مال زید سے لے لو جب زید سے مانگا گیا تو اس نے کہا کہ یہ مال فلاں امپوٹر کے آئل ٹرمینل پر بھیج دو اور وہاں زید کہتا ہے کہ میرا مال اس گاڑی میں لوڈ کر دیں ۔

اس صورت میں بھی کسی کی طرف قبضہ اور ضمان منتقل نہیں ہوتا، تمام مڈل مین حضرات نے صرف مال کے حوالے کیے، البتہ آخری صارف نے مال پر قبضہ کیا، مال کا ضمان یا تو امپوٹر کے قبضہ میں تھا، اب گاڑی لوڈ ہو جانے کے بعد آخری صارف ( جو مثال میں خالد ہے ) کے ذمے ہے ۔  اس صورتِ حال کی روشنی میں سوالات درج ذیل ہیں:

1۔اس قسم کے معاملات کا کیا حکم ہے اور ان سے حاصل ہونے والے نفع  کا کیا حکم ہے ؟

2۔ مڈل مین تاجر کے اس مال پر قبضہ اور ضمان میں آنے کی کیا کوئی صورت ہے ؟ کیونکہ اگر یہ حضرات مال اٹھاکر کہیں رکھوائیں تو آمدنی سے زیادہ خرچہ اور کرایہ لگ جائے گا ۔

3۔ جب کئی تاجر درمیان میں ہوں جیسے کہ  پیچھے مثال ذکر کی گئی تو کیا  ان سب کا قبضہ و ضمان  کیسے ہو گا؟

4۔ کیا صرف مڈل مین  تاجر کا امپوٹر سے کہہ دینا کہ " میں اپنے خریدے ہوئے مال کا ضامن ہوں جو آپ کے پاس رکھا ہے"  اس سے قبضہ و ضمان ثابت ہو جائے گا ؟

5۔  ایسی صورتحال میں قبضہ و ضمان ہر ہر تاجر کیسے حاصل کرے؟ اس کی تدبیر کیا ہے؟

6۔ کیا تاجروں کا یہ کہنا  درست  ہے  ؟کہ " ہم مال کے نفع نقصان کے ضامن ہیں تو یہ ضمان اور رسک  معاملے کے جائز ہونے کیلئے کافی ہے ‘‘ کیونکہ مال کے ریٹ بڑی تیزی سے گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں کوئی تاجرصبح  ایک سودا لیتا ہے اور شام تک اس میں ہزاروں یا لا کھوں  روپے کا نفع یا نقصان ہو جاتا ( ریٹ کے تیزی سے بار بار کم و بیش ہونے کے سبب ) نیز تاجروں کا یہ خیال کہ  اپنے بائع کو پورے پیسے دینے کے ہم ذمے دار ہیں، چاہیں خریدار سے ملیں یانہ ملی، یہ بھی تو رسک اور ضمان ہے ۔کیا یہ بات شرعًا ضمان کی شرط کیلئے کافی ہے ؟

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ بیرون ممالک سے کوکنگ آئل (خواہ ریفائن شدہ ہو یا غیر ریفائن شدہ بہرصورت) بڑے بڑے ٹینکروں میں ہوتا ہے، اسی حالت میں اس کی خریدوفروخت ہوتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ ٹینکر سے آئل علیحدہ کرکے فروخت کیا جاتا ہو، بلکہ سینکڑوں ٹن کے ٹینکر میں سے ہی زید، عمرو اور بکر خرید کر آگے بیچ رہے ہوتے ہیں، جس میں تعیین بھی نہیں ہوتی کہ کس کا کون ساآئل ہے؟ البتہ مقدار کا علم ہوتا ہے کہ کس نے کتنا آئل خریدا ہے؟ اس کا فیصدی حصہ معلوم ہوتا ہے۔واضح رہے کہ یہ کام ہول سیل میں بڑی مقدار میں ہوتا ہے، مثلاً: عمومًا ایک سودا 30 ٹن کا ہوتا ہے،جو ایک گاڑی کا مال ہے، روزانہ بازار میں 50 سے 100 گاڑیوں کے مال کی خرید و فروخت عام معمول ہے، کبھی اس سے کم اور کبھی اس سے بہت زیادہ مقدار کے سودے ہوتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔مال خریدکرآگے فروخت کرنے کے لیے شرعاً قبضہ کا ہونا ضروری ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ قبضہ کیے بغیر کوئی چیز کسی کے ضمان میں داخل نہیں ہوتی، جبکہ حدیثِ پاک میں "ربح مالم یضمن" سے منع کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز آدمی کے ضمان اور ذمہ داری میں نہ ہو آدمی کے لیے اس چیز کو بیچ کر نفع حاصل کرنا جائز نہیں، کیونکہ شریعت اس بات سے منع کیا ہے کہ چیز کسی کے ضمان میں ہو اور اس سے نفع کوئی اور شخص حاصل کرے، اس لیے حدیثِ پاک کی رُو سے  قبضہ کیے بغیر آگے مال فروخت کرنا ناجائز اورگناہ ہے۔

ایسی خریدوفروخت کو فقہی اصطلاح میں فاسد (ناجائز اور خراب) کہا جاتا ہے اور فاسد خریدوفروخت کا حکم یہ ہے کہ اس خریدوفروخت کو فسخ کرنا (Cancel) اور اللہ تعالیٰ سے اس پر توبہ واستغفار کرنا فریقین کے ذمہ لازم ہے، لیکن اگر فریقین نے اس خریدوفروخت کو ختم نہ کیا اور اس کے ذریعہ نفع حاصل کیا تو حاصل شدہ نفع کا حکم خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ ہے، خریدار نے آئل خریدنے اور پھر آگے بیچنے پر جو نفع حاصل کیا ہے وہ نفع بلانیتِ ثواب صدقہ کرنا واجب ہے، البتہ فروخت کنندہ نے آئل کی قیمت جو کرنسی کی صورت میں حاصل کی ہے اس کے ذریعہ کوئی خریدوفروخت کرکے جو نفع حاصل کیا ہے وہ صدقہ کرنا ضروری نہیں۔ ان کے درمیان وجہٴ فرق یہ ہے کہ کرنسی متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ اگر خریدوفروخت کے دوران ایک نوٹ کی جگہ دوسرا دے دیا جائے تو دوسرا فریق اس پر اعتراض نہیں کرتا، اس لیے فاسد خریدوفروخت میں لی گئی کرنسی کا نفع میں کوئی دخل نہیں ہوتا۔ جبکہ کرنسی کے علاوہ دیگر چیزیں جیسے آئل وغیرہ وہ متعین کرنے سے متعین ہوتی ہیں، اس لیے ان کو بیچ کر حاصل شدہ نفع میں ان کا دخل ہوتا ہے، اس لیے ان کے ذریعہ ناجائز طریقہ سے حاصل کیا گیانفع صدقہ کیا جائے گا۔

2۔ مذکورہ صورت میں صرف اخراجات کے خوف سے شرعی حکم چھوڑنا مسلمان کے لیےبالکل جائزنہیں،

شریعت کے مطابق تجارت کرنے کے لیے اگر بقدرِ ضرورت اخراجات آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مالِ تجارت میں اتنی برکت بھی ڈال دیتے ہیں، لہذا ہرمڈل مین تاجر کو چاہیے کہ آئل خرید کر پہلے  اس پر قبضہ کرے اور پھر آگے آئل ڈپو والے کوبیچے اور عام حالات (جب امپورٹر اور آئل ڈپو والے کے درمیان صرف ایک مڈل مین تاجر ہو) میں مڈل مین کے قبضہ كی دو جائز صورتیں ہو سکتی ہیں:

الف: مِڈل مین امپورٹر سے مال خرید لے اور پھر آگے  آئل ڈپو والے سے  آئل کی فروختگی کا صرف وعدہ کرے، اس کے لیے وہ آرڈر لیتے وقت رقم ایڈوانس بھی وصول کر سکتا ہے، آرڈ لینے کے بعد امپورٹر کے پاس اپنی گاڑی بھیجے اور مطلوبہ مقدار میں  آئل ڈپو والے تک پہنچا دے، جب یہ آئل ڈپو والے کے پاس پہنچے گا تو اس وقت صراحتاً زبانی خریدوفروخت کا معاملہ کر لیں اور اگر زبانی معاملہ نہ بھی کریں تو بھی آئل ڈپو والے کے پاس پہنچنے سے تعاطیاً (بغیر ایجاب وقبول کے مال دینا اور لینا)خریدوفروخت کا معاملہ منعقد ہو جائے گا۔ البتہ اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ امپورٹر سے آئل اٹھانے والی گاڑی  مڈل مین کی طرف سے ہو، تاکہ وہ بطورِ وکیل مال پر قبضہ کرکے آئل ڈپو والےتک پہنچائے اور شرعاً وکیل کا قبضہ موکل کا قبضہ اور ضمان شمار ہوتا ہے۔

ب: دوسری صورت یہ کہ مڈل مین آئل خرید کر اپنے گودام یا اسٹور میں رکھے اور پھر اس کے بعد وہ آئل ڈپو والےکو فروخت کرے، اپنے گودام یا اسٹور میں مال رکھنے سے قبضہ اور ضمان دونوں خودبخود مڈل مین کی طرف منتقل ہو جائیں گے۔

لہذا اگر امپورٹر اور آئل ڈپو والے کے درمیان صرف ایک مِڈل مین تاجر ہو تومذکورہ بالادونوں صورتیں  قابلِ عمل ہیں، لیکن اگر ان کے درمیان کئی مڈل مین تاجر ہوں، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو اس صورت میں صرف دوسری صورت شرعاً قابلِ عمل ہو سکتی ہے، پہلی صورت  شرعاًقابلِ عمل نہیں ہو گی، کیونکہ گاڑی والا شخص صرف ایک آدمی کی طرف سے ہی وکیل بن سکتا ہے، دو آدمیوں کی طرف سے اس کا وکیل بننا درست نہیں، لہذا صرف ایک مڈل مین کے گاڑی بھیجنے سے سب مڈل مین(Middle Men) تاجروں کا شرعاً قبضہ نہیں ہو گا، بلکہ ہرمڈل مین تاجر کا کوکنگ آئل پر علیحدہ قبضہ ہونا ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہر مڈل مین آئل خرید کر اپنے گودام یا ٹینک میں رکھے اور پھر آگے بیچے تو معاملہ درست ہو گا، ورنہ نہیں۔

3۔ درمیان کے دیگر تاجرحضرات کے قبضہ کرنے کی صورت بھی یہی ہے کہ ہرمڈل میں  مال اٹھا کر اپنے گودام وغیرہ میں منتقل کریں یا کم ازکم اپنی گاڑی میں مال اٹھا کرخریدار تک پہنچائیں، ان دونوں صورتوں کے علاوہ آئل امپورٹر کے قبضہ میں موجود رہنے کی صورت میں قبضہ کا ہونا ممکن نہیں۔

4۔ مِڈل مین تاجرکا امپورٹر سے یہ کہہ دینا کہ" میں اپنے خریدے ہوئے مال کا ضامن ہوں" قبضہ اور ضمان کے

لیے کافی نہیں، کیونکہ ضمان کا مدار قبضہ پر ہے اور قبضہ کے تحقق کے لیے کم ازکم تخلیہ ضروری ہے اور تخلیہ (خریدار کو بغیر کسی مانع کے چیز استعمال کرنےکا مکمل اختیار دے دینا) کے لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے درج ذیل چار شرائط ذکر کی ہیں:

الف: خریدار کو  صراحتاً یا  دلالتاً چیز کے استعمال کی اجازت دی جائے۔

ب: وه چيز خریدار کے قریب ہو، اگر وہ چیز دور ہو تو تخلیہ کےمعتبرہونے کے لیے اتنا وقت گزرنا ضروری ہے کہ جس میں خریدار اس چیز کے پاس پہنچ کر اس کے استعمال پر بالفعل قادر ہو سکے۔

ج: وہ چیز متعین اور ممیز ہو، یعنی دوسری چیزوں سے جدا اورعلیحدہ ہو۔

د:  چیز کسی کے حق کے ساتھ مشغول نہ ہو، یعنی سامان یا کسی اور چیز کے ذریعہ کسی شخص کے زیرِ استعمال نہ ہو۔

اگر ان چار شرطوں میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو تخلیہ درست نہیں ہوتا، جبکہ سوال میں ذکر کی گئی صورت کے مطابق آئل فروخت کنندہ کے ٹینکر وغیرہ میں ہی موجود ہوتا ہے، علیحدہ نہیں کیا جاتا اور  اسی حالت میں اس کی  خریدوفروخت ہو رہی ہوتی ہے، اس لیے اس پر تخلیہ کے ذریعہ قبضہ کے تحقق کا  حکم لگانا ممکن نہیں۔

5۔ اس کا جواب سوال نمبر۲اور۳کے جواب میں گزر چکا ہے۔

6۔ تاجروں کا یہ کہنا کافی نہیں کہ " ہم مال کے نفع و نقصان کے ضامن ہیں تو یہ ضمان اور رسک(Risk) معاملہ کے جائز ہونے کیلئے کافی ہے" کیونکہ شریعت نے خریدوفروخت میں نفع ونقصان کے ضامن ہونے کے کچھ اصول مقرر کیے ہیں، ان اصولوں کی روشنی میں نفع ونقصان کا ضامن بننا درست ہو گا، ان اصولوں سے ہٹ کر اگر کوئی شخص کسی مال کے  نقصان کی ذمہ داری قبول کرتا ہے تو شرعاً اس کو ضامن نہیں ٹھہرایا جا سکتا اورنہ ہی اس ضمان کی بنیاد پر نفع کے حلال ہونے کا حکم لگایا جا سکتا ہے۔

خریدفروخت کے معاملے میں شریعت نے خریدے گئے مال پر قبضہ کے بغیر ضمان کو معتبر نہیں مانا،  مذکورہ صورت میں جب خریدا گیا  مال معلوم اور متعین نہیں تو اس صورت میں شرعاً اس مال کا ضمان لینا  بھی شرعاً درست اور معتبرنہیں اور ضمان درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کی بنیاد پر نفع حاصل کرنا بھی جائز نہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ مذکورہ صورتِ حال میں سٹہ کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ مال غیر متعین اور غیر ممیز ہونے کی صورت میں ایک ہی جگہ پر موجود ہوتا ہے اور اسی حالت میں کئی لوگ قبضہ کیے بغیر ایک دوسرے سے صرف زبانی یا تحریری طور پر معاہدہ کرکے نفع کما رہے ہوتے ہیں اور سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق آئل کے ریٹ بھی ایک ہی  دن میں مسلسل اوپر نیچے ہو رہے ہوتے ہیں، اسی صورتِ حال کو جوا اور سٹہ کہا جاتا ہے، جوکہ شرعاً حرام اور ناجائز ہے،نیز امپورٹر اورآئل ڈپو والے كے درمیان  اتنے تاجروں (Middle Men) کے آنے سے پروڈکٹ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوتا ہے، جو عام صارفین کے لیے حرج اور مشکلات کا باعث ہے،  اس لیے اس طرح خریدوفروخت کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔

حوالہ جات
1۔ أخبار مكة للفاكهي (3/ 48، رقم الحديث: 1801) دار خضر – بيروت:
حدثنا محمد بن أبي عمر، قال: ثنا نصر بن باب، عن حجاج بن أرطأة، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، رضي الله عنه قال: إن النبي صلى الله عليه وسلم بعث عتاب بن أسيد رضي الله عنه إلى أهل مكة وقال: " هل تدري إلى من أبعثك؟ أبعثك إلى أهل الله، فانهَهُم عن شرطين في بيع، وبيع وسلف، وربح ما لم يضمن، وبيع ما لم يقبض "
2۔ الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 53) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "ومن اشترى جارية بيعا فاسدا وتقابضا فباعها وربح فيها تصدق بالربح ويطيب للبائع ما ربح في الثمن" والفرق أن الجارية مما يتعين فيتعلق العقد بها فيتمكن الخبث في الربح، والدراهم والدنانير لا يتعينان فى العقود فلم يتعلق العقد الثاني بعينها فلم يتمكن الخبث فلا يجب التصدق، وهذا في الخبث الذي سببه فساد الملك.
3۔ مجلة الأحكام العدلية (ص: 54) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(المادة 262) القبض ليس بشرط في البيع إلا أن العقد متى تم كان على المشتري أن يسلم الثمن أولا ثم يسلم البائع المبيع إليه.
(المادة 263) تسليم المبيع يحصل بالتخلية وهو أن يأذن البائع للمشتري بقبض المبيع مع عدم وجود مانع من تسليم المشتري إياه۔
(المادة 264) متى حصل تسليم المبيع صار المشتري قابضا له۔
(المادة 265) تختلف كيفية التسليم باختلاف المبيع.
4۔ درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:(ج:1ص:251) دار الجيل:
(المادة 263) تسليم المبيع يحصل بالتخلية وهو أن يأذن البائع للمشتري بقبض المبيع مع عدم وجود مانع من تسليم المشتري إياه إذا أذن البائع. للمشتري بتسلم المبيع الذي يكون بحضرة المشتري أولا ومفرزا ثانيا وغير مشغول بحق الغير ثالثا أي بحيث لا يكون مانع ولا حائل بين المشتري وقبض المبيع وأذن له بالتسلم والحالة هذه يحصل التسليم لأن ذلك غاية جهد البائع في تسليم المبيع والقبض بالفعل عائد إلى المشتري وليس في طاقة البائع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إذا لم يتسلمها المشتري حين ذاك وتركها للغير أو امتنع من تسلمها فهلكت في دار البائع، بلا تعد منه
ولا تقصير فعلى قول الإمام محمد يتحقق التسليم ويكون هلاكها على المشتري (انظر المادة 295) أما عند أبي يوسف فالتخلية في دار البائع ليست بقبض۔
5۔ درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:(ج:1ص:255) دار الجيل:
إن المقصود من اشتراط مرور وقت يتمكن فيه من الدخول ليس الدخول بالفعل وإنما المقصود التمكن من القبض حتى إذا كان غاصب يشغل الدار أو أمتعة للبائع وكانت الدار على هذا الوجه من وجود المانع من القبض فمرور الوقت الكافي للوصول والدخول لا يتحقق به القبض.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إن مثل هذا العقار إذا كان قريبا بحيث يمكن المشتري أن يقفله على ما مر في المادة 270 فتسليم مفتاح ذلك العقار. تسليم للدار حسب هذه المادة أما إذا كان العقار ليس قريبا بهذه المرتبة فمجرد تسليم العقار لا يقوم ذلك مقام القبض بل لا بد من مرور الزمن الكافي لوصول المشتري إلى المبيع ودخوله.
6۔ فقه  البيوع :(ج:1ص:410) مكتبة معارف القرآن كراتشي:
القبض في  مخازن السلع: وقد جرت العادة في الأسواق ببيع السلع في المخازن وتسلم إلى المشتري وثائق  تثبت ملكه في كمية من السلع المخزونة فيها فهل يعتبر القبض على الوثيقة قبضا للمبيع؟ والجواب: أن  وثائق السلع المتداولة في السوق على أقسام: فمنها ما يمثل ملك الحامل في سلعة معيّنة بأن تكون السلع معبّأة في  كرتونات مرقمة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ونظرا إلى كثرة التعامل فيما بين الناس بهذا الشكل فقد زعم بعض الناس تبريره على أساس أن إعطاء هذه الوثيقة تخلية بين المبيع وبيع المشتتري ، فينبغي أن يعتبر  قبضا حكميا، ولكن الواقع أن التخلية إنما تعتبر إذا كان المبيع متعيّنا مميزا عن غير المبيع أما التخلية بدون التعيين فإنه ليس تخلية  في الواقع وإنما هو حق للٓاخذ بعد التعيين۔
7۔ فقه  البيوع :(ج:1ص:413) مكتبة معارف القرآن كراتشي:
أن  عند الشافعية قولافي بيع مالا تتفاوت آحاده كالحنطة أنه إن اشترى قفيزا واحدا من الصبرة فإن الشراء يعتبر لحصة مشاعة من الصبرة قال جلال الدين  المحلي في شرح المنهاج:" ويصح بيع صاع من صبرة تعلم صيعانها للمتعاقدين، وينزل على الإشاعة فإذا علما أنها عشرة آصع، فالمبيع عشرها، فلو تلف بعضها تلف بقدره من المبيع"                                  
وعلى هذا القول، لو علمت الكمية المجموعة في المخزن أنها عشرة أطنان مثلا: وبيعت منها كميّة مثل طن واحد، فإن الكمية المذكورة على الوثيقة تمثل حصة مشاعة في مجموع ما في المخزن ويعتبر البيع أنه بيع عشر ما في المخزن۔ فلو هلك طن منه، فإنه ينقص قدر العشر من الطنِّ المبيع۔ ولكنه مشروط بأن يعلم المتعاقدان مجموع الكمية وأن يتحمل المشتري هلاك حصته فيها، والعادة في أسواق  السلع أن المشتري لا يعرف الكمية المجموعة في المخزن، ولايعتبر  المشتري ضامنا عند  هلاك  بعضها بقدر حصته فيها۔ فلا تنطبق عليه هذه الجزئيّة۔
8۔ مجلة الأحكام العدلية (ص: 55) نور محمد، كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي:
(المادة 272) الحيوان يمسك برأسه أو أذنه أو رسنه الذي في رأسه فيسلم وكذا لو كان الحيوان في محل بحيث يقدر المشتري على تسلمه بدون كلفة فأراه البائع إياه وأذن له بقبضه كان ذلك تسليما أيضا۔
9۔فقه  البيوع :(ج:1ص:413) مكتبة معارف القرآن كراتشي:
واشترط في الخانية أن يقول مع دفع المفتاح: "خليت بينك وبين الدار فاقبضه" فإن لم ذلك لم يكن قبضا، ولم يشترط ذلك في البحر والهنديةوغيرهما والظاهر أن المقصود بهذا الشرط أن يتعين دفع المفتاح لغرض التسليم لأنه يحتمل أن يكون دفع لغرض آخر، وعليه فلاينبغي أن يشترط هذا اللفظ بخصوصه بل إذا دفع المفتاح ودلت القرائن على المقصود منه التسليم كفى ذلك، ولهذا لم يذكر الفقهاء الاخرون۔ والله أعلم۔
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

5/جمادى الاولى 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب