021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صحن خارج از مسجد کو داخل مسجد کرنے کا حکم
74800وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ ہمارے صوبہ گجرات(انڈیا) میں عام طور سے مسجد کا صحن، شرعی مسجد میں داخل نہیں ہوتا تو کیا اب مسجد کا بانی یا انتظامیہ صحن کو داخل کرنے کی نیت کرے تو یہ صحن مسجد شرعی میں شامل ہو جائے گا یا نہیں ؟ عام معروف مسئلہ ہمارے یہاں تو یہی ہے کہ توسیع مسجد کےوقت جدید حصہ کو مسجد شرعی میں داخل کرنے کی نیت صحیح ہوتی ہے لیکن بغیر توسیع کے پہلے سے (یعنی بانی کے وقف کرتے وقت سے) جو حصہ موجود تھا(مثلا صحن مسجد)لیکن بانی نے اسے مسجد شرعی میں شامل کرنے کی نیت نہیں کی تو اب وقف ہو جانے کےبعد اس میں مسجد میں داخل کرنے کی نیت معتبر نہ ہوگی ۔ آں حضرات کرام سے تحقیقی تفصیلی جواب کی درخواست ہے ۔ نوٹ: معتکفین کی سہولت کے مد نظر اس طرح صحن کوداخل مسجد کرنا ہے۔ فقط و السلام ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر مسجد میں تنگی کے پیش نظر صحن کو مسجد میں شامل کرنا ہو تواس کا انتظامیہ کو مطلقا اختیار ہے،البتہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد ہو،مثلامحض (بلا ضرورت)توسیع مسجد مقصود ہو یا معتکفین کی سہولت پیش نظر ہو جیسا کہ سؤال میں پوچھا گیا ہےتوخود واقف  یا واقف کا مقرر کردہ متولی یا اس کے طے کردہ اصول بر بنی کمیٹی موجود ہو تو وہ بعد میں بھی نیت کرسکتی ہے اور ایسی صورت میں ان کے علاوہ دیگرکی نیت کا اعتبار نہیں۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (2/ 456)
ولو ضاق المسجد على الناس وبجنبه أرض لرجل تؤخذ أرضه بالقيمة كرها، كذا في فتاوى قاضي خان
أرض وقف على مسجد والأرض بجنب ذلك المسجد وأرادوا أن يزيدوا في المسجد شيئا من الأرض جاز لكن يرفعوا الأمر إلى القاضي ليأذن لهم، ومستغل الوقف كالدار، والحانوت على هذا، كذا في الخلاصة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 379)
(تؤخذ أرض) ودار وحانوت (بجنب مسجد ضاق على الناس بالقيمة كرها) درر وعمادية.
 (قوله: وتؤخذ أرض) في الفتح: ولو ضاق المسجد وبجنبه أرض وقف عليه أو حانوت جاز أن يؤخذ ويدخل فيه اهـ زاد في البحر عن الخانية بأمر القاضي وتقييده بقوله: وقف عليه أي على المسجد يفيد أنها لو كانت وقفا على غيره لم يجز لكن جواز أخذ المملوكة كرها يفيد الجواز الأولى؛ لأن المسجد لله تعالى، والوقف كذلك ولذا ترك المصنف في شرحه هذا القيد وكذا في جامع الفصولين تأمل (قوله: بالقيمة كرها) لما روي عن الصحابة - رضي الله عنهم - لما ضاق المسجد الحرام أخذوا أرضين بكره من أصحابها بالقيمة وزادوا في المسجد الحرام بحر عن الزيلعي قال في نور العين: ولعل الأخذ كرها ليس في كل مسجد ضاق، بل الظاهر أن يختص بما لم يكن في البلد مسجد آخر إذ لو كان فيه مسجد آخر يمكن دفع الضرورة بالذهاب إليه نعم فيه حرج لكن الأخذ كرها أشد حرجا منه ويؤيد ما ذكرنا فعل الصحابة إذ لا مسجد في مكة سوى الحرام اهـ.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۷جمادی الاولی۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب