021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ایکسیڈنٹ میں مرنے والے کی دیت کا حکم
74747قصاص اور دیت کے احکامقسامت یعنی کسی پائے جانے والے مقتول پر اہل محلہ سے قسم لینے کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک کار میں ڈرائیور سمیت پانچ بندے سفرکررہےتھے کہ اچانک ایکسیڈنٹ ہوگیا ،جس میں ڈرائیور کےعلاوہ سب لوگ وفات پاگئے،تو اب  پوچھنا یہ ہے کہ 1-اس ڈرائیور پر کوئی کفارہ و دیت وغیرہ لازم ہوگی یانہیں ؟2-اورا گر لازم ہوگی تو کتنے آدمیوں کی؟ 3- شرعاً دیت کی کیامقدار ہے ؟ 4-اور اس کے ادا کرنے کاکیاطریق کارہے؟ واضح رہے کہ ڈرائیور نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کررہا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ قتل بالسبب  ہے۔ اگر ڈرائیور پر نشے کی حالت میں ڈرائیونگ  کرنا  ثابت ہوچکا ہے یا اس نے نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کا اقرار کیا ہے  تو   ڈرائیور پر  دیت  لازم ہوگی۔دیت تمام مقتولین کے ورثہ کو ادا کرنا ضروری ہے،البتہ اگر مقتولین کے ورثہ ڈرائیور کو معاف کرنا چاہے یا دیت سے کم قیمت پر صلح کرنا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

   ایک مقتول کی دیت کی مقدار دس ہزار درہم(2625 تولے چاندی)  یا اس کی قیمت، یا ایک ہزار دینار(375 تولے سونا)  یا اس کی قیمت،یا سو اونٹ یا اس کی قیمت ہے۔دیت ڈرائیور اور اس کے عاقلہ پر واجب ہوگی۔

   عاقلہ قاتل کا خاندان  ہوگا، نیز اگر  ڈرائیور  کا تعلق کسی انجمن یا ادارے سے ہے تو وہ بھی عاقلہ میں شمار ہوگا۔عاقلہ سے دیت تین سال میں وصول کی جاتی ہے۔

حوالہ جات
قال جماعۃ من العلماء:وأما القتل بسبب فمثل حفر البئر ووضع الحجر في غير ملكه ,كذا في الكافي ولو وطئت دابته إنسانا فقتلته، وهو سائقها، أو قائدها فهو قتل بسبب ,كذا في المضمرات ,وموجبه إذا تلف به آدمي الدية على العاقلة، ولا يتعلق به الكفارة، ولا حرمان الميراث عندنا ,كذا في الكافي. والله أعلم. )الفتاوی الھندیۃ:1/(190
              وقال المفتي محمد  تقي العثمانی حفظہ  الله: الأصل أن  سائق السیارۃ مسؤول عن کل ما یحدث بسیارته  خلال تسییرہ إیاھا،وذالك ؛لأن السیارۃ آلۃ فی یدہ،وھو یقدر علی ضبطھا،فکل ما ینشأ عن السیارۃ ،فإنہ مسؤول عنہ.     (بحوث فی قضایا الفقھیۃ المعاصرۃ:1/298 )
             وقال العلامة الزيلعي رحمه الله:قال رحمه الله  :(والخطأ مائة من الإبل أخماسا ابن مخاض وبنت مخاض وبنت لبون وحقة وجذعة) أي دية الخطأ مائة من الإبل أخماسا....قال  رحمه الله :(أو ألف دينار أو عشرة آلاف درهم) أي الدية من الذهب ألف دينار ،ومن الورق عشرة آلاف درهم.
 (تبيين الحقائق:7/267)
                  وقال العلامة الكاساني رحمه الله: وأما  بيان من تجب عليه الدية فالدية تجب على القاتل؛ لأن سبب الوجوب هو القتل، وإنه وجد من القاتل، ثم الدية الواجبة على القاتل نوعان: نوع يجب عليه في ماله، ونوع يجب عليه كله، وتتحمل عنه العاقلة، بعضه بطريق التعاون إذا كان له عاقلة، وكل دية وجبت بنفس القتل الخطأ أو شبه العمد تتحمله العاقلة، وما لا فلا. (بدائع الصنائع:10/311)
وقال العلامة الحصكفي رحمه الله: (والعاقلة أهل الديوان) وهم العسكر ،وعند الشافعي: أهل العشيرة وهم العصبات (لمن هو منهم ،فيجب عليهم كل دية وجبت بنفس القتل).... (فتؤخذ من عطاياهم) أو من أرزاقهم....(في ثلاث سنين) من وقت القضاء....(وإن لم يكن) القاتل (من أهل الديوان ،فعاقلته قبيلته) وأقاربه وكل من يتناصر هو به، تنوير البصائر.(وتقسم) الدية (عليهم في ثلاث سنين لا يؤخذ في كل سنة إلا درهم أو درهم وثلث.   (الدرالمختار:10/325)

کاظم علی     

دارالافتاء جامعۃالرشید ،کراچی

1/جمادی الاولی/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

کاظم علی بن نادر خان

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / فیصل احمد صاحب