021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پروویڈنٹ فنڈ کا شرعی حکم
74975سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

میرے والد صاحب کچھ دنوں میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے والے ہیں، ریٹائرمنٹ کی صورت میں   حکومت کی طرف سے پروویڈنٹ فنڈ  کے نام پر   ایک رقم ادا کی جاتی ہے، اس رقم کو لینا کیسا ہے؟ پروویڈنٹ فنڈ کا شرعی حکم کیا ہے؟

وضاحت از مستفتی: سروس کے دوران  تنخواہ میں سے جو رقم پروویڈنٹ  فنڈ کے لیے کاٹی جاتی تھی وہ اختیاری نہیں تھی ، بلکہ وہ خود بخود ہی کٹ جاتی تھی  اور  جبری کٹوتی ہوتی تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حکومت یا کوئی  کمپنی  اگر پروویڈنٹ فنڈ میں  ملازم کی تنخواہ سے  کچھ رقم جبری طور پر کا ٹ لیتی ہے،اور اس  میں ملازم کے اختیار کا کوئی دخل نہیں ہوتا تو اس صورت کا حکم یہ ہے کہ  جبری طور پر کاٹی جانے والی رقم اور  وہ رقم جو محکمہ  خود اپنی طرف سے دیتا ہے، یہ دونوں رقمیں تو بلاشبہ ملازم کےلیے حلال اور جائز ہیں ، اسی طرح  محکمہ اگر ان  دونوں رقموں سے  کوئی جائز اور حلال کاروبار کر  کے اس کا نفع ملازم کو دیتاہےتو یہ نفع بھی ملازم کے لیے حلال ہے، لیکن اگر محکمہ ان دونوں رقموں سے کوئی ناجائز اور حرام کاروبار کر کے یا ان رقموں کو سودی بینک میں رکھوا کر اس کا نفع ملازم کو دیتا ہے تو اس کی پھر دو صورتیں ہیں:

ایک صورت تو یہ ہے کہ محکمہ یہ حرام نفع  بینک وغیرہ سے خود وصول کرے اور اپنے مرکزی اکاونٹ میں جمع کرے ، جب کہ مرکزی اکاونٹ کا اکثر و بیشتر  سرمایہ حلال ہو  اور وہاں ملاز م کو  اصل پروویڈنٹ فنڈ کے ساتھ  یہ نفع بھی ملے تو  ملازم کے حق میں  یہ نفع حلال ہے  اور اس نفع کو وصول کرنا جائز ہے۔

 دوسری صورت یہ ہے کہ محکمہ حرام نفع خود وصول  نہ کرے  بلکہ ملازم  جا کر بینک سے  یہ نفع وصول کرے  تو ایسی صورت میں  ملازم کے لیے یہ نفع حلال نہ ہو گا اور نہ ہی اس کو وصو  ل کرنا  جائز ہو گا، اور اگر لا علمی یا غلطی سے یہ نفع وصول کر بھی لیا جائے تو ملازم کے لیے  ثواب کی نیت کے بغیر اس نفع کو فقراء پر  صدقہ کرنا ضروری ہو گا ۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 300)
(قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط لكن ليس له بيعها قبل قبضها.
فقہ البیوع(۱۰۰۷/۲)
ومار ورد فی کلام بعض الفقہاء  الحنفیۃ ان الحرمۃ لا تتعدی  الی ذمتین ، فھو محمول علی ما اذا  لم یعلم بذالک۔۔۔ وکذلک الصحیح انہ لا یحل  للورثۃ اذا علمو ا انہ حرام۔

سعد مجیب

دارلافتاء جامعۃ الرشید  کراچی

۱۵ جمادی الاولی ۱۴۴۳

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب