021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ناجائز اولاد کا حکم
74644نکاح کا بیاننسب کے ثبوت کا بیان

سوال

میں اپنے ماں باپ کی ناجائز اولاد ہوں۔ میرے ماں باپ نے بغیر نکاح کے مجھے اور میری بہن کو پیدا کیا۔ میرے والد میرے رشتے کے سگے خالو بھی ہیں، خالہ کا انتقال ہوگیا ہے، ان کے دو بچے ہیں: ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔ بچپن میں ہم سب ساتھ رہتے تھے، لیکن جب ہمیں اس بات کا علم ہوا کہ ہم خالو سے پیدا ہوئے ہیں، اس کے بعد میں والدہ اور بہن الگ رہنے لگے۔ اور والد (خالو) خالہ اور اپنے بچوں کے ساتھ رہنے لگے۔ خالہ کا 2017 میں انتقال ہوگیا تو میرے والد (خالو) میرے ساتھ رہنے لگے اور والدہ بھی ساتھ رہتی ہیں۔

اس سلسلے میں مجھے مندرجہ ذیل باتوں میں رہنمائی چاہیے:

1۔ اسلام اور شریعت کے مطابق میرے لیے اپنے والدین پر کیا حقوق ہیں؟ کیا وہ دونوں میرے ساتھ ایک گھر میں رہ سکتے ہیں؟

2۔ میری بہن کیا میری حقیقی بہن ہے، کیا ان سے میرا بہن بھائی والا رشتہ ہے؟

3۔ میری والدہ میرے والد کے بغیر نہیں رہنا چاہتیں اور دونوں نکاح بھی نہیں کرتے۔ اب ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

4۔ کیا میرا میرے والد سے رشتہ بنتا ہے یا نہیں؟ میں نے سنا ہے ولد الزنا سے باپ کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، نہ باپ کے رشتہ داروں سے؟

5۔ مجھے کبھی خودکشی کا خیال آتا ہے۔ کیا کروں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کی والدہ کا آپ کے خالو کے ساتھ اس طرح رہناسخت گناہ اور حرام ہے۔ آپ کی والدہ یا تو اُن سے نکاح کریں یا پھر علیحدگی اختیار کریں، ورنہ دونوں سخت گناہگار ہوں گے۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ آپ کے شرعی والد کون ہیں تو اِس سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ سوال میں آپ نے جو کہا کہ

"بچپن میں ہم سب ساتھ رہتے تھے، لیکن جب ہمیں اس بات کا علم ہوا کہ ہم خالو سے پیدا ہوئے ہیں، اس کے بعد میں، والدہ اور بہن الگ رہنے لگے"۔

 اِس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی والدہ شادی شدہ تھیں، اور آپ دونوں بہن بھائی کو پہلے آپ کی والدہ کے شوہر سے سمجھا جاتا تھا، لیکن بعد میں یہ بات پھیل گئی کہ آپ دونوں اپنے خالو سے پیدا ہوئے ہیں۔

چنانچہ مذکورہ صورت میں اگر آپ کی والدہ کی شادی آپ کی ولادت سے چھ مہینے پہلے ہوئی تھی تو آپ کا نسب آپ کی والدہ کے شوہر سے ہی ثابت ہوگا اور شریعت کی نظر میں وہ ہی آپ کے شرعی والد سمجھیں جائیں گے، لہذا اس صورت میں آپ کا اپنے خالو کو والد سمجھنا درست نہیں۔

اسی طرح اگر آپ کی بہن کی ولادت بھی آپ کی والدہ کے نکاح کے چھ ماہ بعد ہوئی تھی تو اس کا نسب بھی آپ کی والدہ کے شوہر سے ہی ثابت ہوگا اور وہ آپ کی سگی بہن کہلائے گی اور آپ پر اور آپ کی بہن پر آپ کے خالو کے لیے بطور والد کوئی حق ثابت نہیں ہوگا۔

البتہ اگر آپ دونوں کی یا آپ دونوں میں سے کسی ایک کی ولادت آپ کی والدہ کے نکاح سے چھ ماہ پہلے ہوئی ہو یا آپ کی والدہ سرے سے شادی شدہ ہی نہ ہوں تو آپ دونوں کے یا جس کی ولادت چھ ماہ پہلے ہوئی ہے، اُس کے وہ ہی احکام ہوں گے جو کسی ولدالزنا بچے کے ہوتے ہیں اور اِس صورت میں بھی آپ کا آپ کے خالو سے ولدیت کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ البتہ والدہ کے ساتھ حسن سلوک آپ پر لازم ہوگا اور وہ ہی تمام حقوق ہوں گے جو ماں اور اولاد کے ہوتے ہیں، نیز یہ بہن آپ کی ماں شریک بہن کہلائے گی۔

حوالہ جات
فی صحیح البخاری، رقم الحدیث: 6818
عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الولد للفراش وللعاھر الحجر.
وفی الفتاوی الھندیۃ: 1/536
النكاح الصحيح وما هو في معناه من النكاح الفاسد: والحكم فيه أنه يثبت النسب من غير عودة، ولا ينتفي بمجرد النفي، وإنما ينتفي باللعان، فإن كانا ممن لا لعان بينهما لا ينتفي نسب الولد، كذا في المحيط.
وفیہ أیضا: 1/536
وإذا تزوج الرجل امرأة فجاءت بالولد لأقل من ستة أشهر منذ تزوجها لم يثبت نسبه، وإن جاءت به لستة أشهر فصاعدا يثبت نسبه منه اعترف به الزوج أو سكت.

طارق مسعود

دارالافتاء، جامعۃ الرشید، کراچی

15، ربیع الثانی، 1443

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

طارق مسعود

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب