021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میاں بیوی کے درمیان تین طلاق میں اختلاف کا حکم
73375طلاق کے احکامتین طلاق اور اس کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

ایک خاتون ہے جس کی شادی کو بارہ سال ہوچکے ہیں اوراس کے پانچ بچے ہیں،خاتون کے بقول میرے شوہرنے مجھےتقریباً پندرہ یا بیس بارطلاق دی ہے، ان بارہ سالوں میں جب بھی کوئی  تلخ کلامی ہوتی تو میرے شوہر یہی کہتے تھے کہ "میں تمہیں طلاق دے رہاہوں یا میں تمہیں طلاق دیتاہوں" اورایک بارایسا بھی ہو اکہ شوہر نے بیک وقت دو طلاقیں دی، جبکہ خاتون کے پاس گواہ بھی ہےکہ جب ایک موقع پر طلاق دی تو میری بہن بھی ساتھ تھی جبکہ شوہر سے طلاق کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ انکارکرتاہے کہ اورکہتاہےکہ "میں نے کبھی زندگی میں طلاق نہیں دی" اوراس پر وہ حلف اٹھانے کے لیے بھی تیارہے،شوہرکے تقوی کا عالم یہ ہے کہ ان کے نزدیک حلف کی کوئی اہمیت نہیں وہ کسی بھی بات پر بغیر کسی جھجک کے حلف یا کلمہ پڑھتے ہیں، حلف یاکلمہ کےلیے وہ کسی بھی بات پر تیارہوجاتے ہیں ،جبکہ خاتون بھی حلف لینے کے لیے تیارہے اوران کے پاس گواہ بھی ہے۔برائے مہربانی اس مسئلے کاحل عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں میاں بیوی میں طلاق کے حوالے سے اختلاف ہے جس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگرمیاں  بیوی کے درمیان  طلاق کے بارے میں  اختلاف ہوجائے توقضاءً شوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوتی ہے، البتہ اگربیوی گواہ پیش کردے تو پھر اس کی بات کا اعتبار کیا جاتاہے ،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  اگر بیوی کے پاس  دو عادل گواہ  ہیں  (صرف ایک گواہ کافی نہیں)تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا ورنہ  قضاءًشوہر کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی، لیکن اگر مذکورہ  خاتون نے اپنے  کانوں  سے تین  طلاق کے الفاظ  سنےہیں اور اس کو  یہ یقین  ہے کہ خاوندنےطلاق دی ہے اوراب وہ  غلط بیانی کررہا ہے  تو دیانةً اسکےلیےحکم یہ ہے کہ وہ اپنے اوپرتین طلاقوں کو واقع سمجھے، اگرچہ شوہرانکار کررہاہو اوراس بات پرقسم کھانے کیلئے بھی تیار  ہو،کیونکہ عورت اس معاملہ میں  قاضی کی طرح ہے ،اورقاضی کو جب حق معلوم ہوتو اس کے لیے اس کے خلاف فیصلہ کرناجائز نہیں ہوتا،لہذامذکورہ عورت اپنے حق میں  احتیاطاً تین طلاقوں کوواقع سمجھتے ہوئے شوہر کواپنے اوپرجماع وغیرہ کے لیےہرگز قدرت  نہ دے،اوراس سے خلع لینےیاکسی اورجائز طریقے سےراہِ فرار اختیارکرنےکی کوشش کرے، تاہم  اگروہ خاوندسے خلع لینے اورجائز طریقے سے راہِ فرار اختیارکرنے پر قادرنہیں تو پھرعدالت سے رجوع کرے اگر عدالت بھی بیوی کے پاس گواہ نہ ہونے کی وجہ سے  خاوند سے حلف لیکر اس کے حق میں فیصلہ کرلے تو پھر اس کے لیےمذکورہ خاوند کے ساتھ رہنے میں گناہ نہیں ہوگا،اورساراگناہ خاوند کے سرہوگا۔

حوالہ جات
وفی الدر المختار (۳۵۶/۳):
( فإن اختلفا في وجود الشرط ) ۔۔۔ ( فالقول له مع اليمين ) لإنكاره الطلاق۔۔۔ ( إلا إذا برهنت )۔وفی الرد تحتہ: قوله ( إلا إذا برهنت ) وكذا لو برهن غيرها.
وفی الشامیۃ (۳۵۶/۳):
( قوله في وجود الشرط ) أي أصلا أو تحققا كما في شرح المجمع : أي اختلفا في وجود أصل التعليق بالشرط أو في تحقق الشرط بعد التعليق وفي البزازية : ادعى الاستثناء أو الشرط فالقول له ۔۔۔ قوله ( قالقول له ) أي
إذا لم يعلم وجوده إلا منها ففيه القول لها في حق نفسها.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 251)
المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله.
وفى حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 420)
 ( سمعت من زوجها أنه طلقها ولا تقدر على منعه من نفسها ) إلا بقتله ( لها قتله ) بدواء خوف القصاص ، ولا تقتل نفسها.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 465)
(و) نصابها (لغيرها من الحقوق سواء كان) الحق (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال صبي)
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 372)
(و) نصابها (لغيرها) من الحقوق سواء كان (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ووكالة ووصية واستهلال الصبي للإرث رجلان أو رجل وامرأتان) لما روي أن عمر وعليا - رضي الله تعالى عنهما - أجازا شهادة النساء مع الرجال في النكاح والفرقة كما في الأموال وتوابعها (ولزم في الكل) في الصور الأربع المذكورة (لفظ أشهد للقبول) حتى لو قال الشاهد أعلم أو أتيقن لا تقبل شهادته لأن النصوص وردت بهذا اللفظ، وجواز الحكم بالشهادة على خلاف القياس فيقتصر على مورد النص(ولزم أيضا العدالة)
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 358)
فإن اختلفا في وجود الشرط......لا بد من شهادة رجلين أو رجل وامرأتين جوهرة.
  البحر الرائق (4/ 62) دار المعرفة، بيروت:
 إن قدرت على الهروب منه لم يسعها أن تعتد وتتزوج بآخر لأنها في حكم زوجية الأول قبل القضاء بالفرقة ثم
رمز شمس الأئمة الإوزجندي وقال قالوا هذا في القضاء ولها ذلك ديانة وكذلك إن سمعته طلقها ثلاثا ثم جحد وحلف أنه لم يفعل وردها القاضي عليه لم يسعها المقام معه ولم يسعها أن تتزوج بغيره أيضا۔
تبيين الحقائق (2/ 198) دار الكتب الإسلامي:
لو قال لها أنت طالق ونوى به الطلاق عن وثاق لم يصدق قضاء ويدين فيما بينه وبين الله تعالى لأنه خلاف الظاهر والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3/ 304):
قال في الفتح: والتأكيد خلاف الظاهر، وعلمت أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه. اهـ.
   القران الکریم : [البقرة: 230]:
{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ }
 الفتاوى الهندية (1 / 473):
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز۔

  سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

10/ ذوالقعدة/ 1442ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب