021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدت گزرنے کے بعد رجوع کا اعتبار نہیں
74917طلاق کے احکامطلاق سے رجو ع کا بیان

سوال

میں رواسیہ بنت محمد علی ہوں۔میری شادی 2021-4-3 کو ہوئی تھی۔ ازدواجی تعلقات کے قائم ہونے کے کچھ دنوں بعد ہمارے درمیان ناچاقی شروع ہوئی یہاں تک کہ ایک دن میرے شوہر نے صریح الفاظ میں کہا"تم مجھ پر طلاق ہو" اس کے بعد ہمارے درمیان ناراضگی رہی یہاں تک کہ بتاریخ 2021-6-17 کو دوبارہ صریح الفاظ میں میری امی کو کہا "یہ لڑکی میرے اوپر طلاق ہے" ان دنوں میں سسرال کے ہاں تھی، شوہر نے کسی قسم کا کوئی رجوع نہیں کیا، قولی نہ فعلی۔ اس کے بعد میں والدین کے گھر آئی، کچھ دنوں بعد دوبارہ سسرال گئی،لیکن وہاں شوہر موجود نہیں تھا۔ فون پر شوہر سے بات ہوئی تو انہوں نے کہاکہ اپنی امی کے گھر چلی جاؤ مجھے آپ کی ضرورت نہیں۔ اس کے بعد میں دوبارہ والدین کے گھر آئی۔ اس دوران تین ماہواری گزر چکی تھی۔ پھر ایک دن بتاریخ 2021-9-28 کو میرا شوہر صلح کے لیے آیا اور خود اپنی گفتگو میں اس بات کا اقرار کیا کہ اس نے مجھے دو طلاقے دی ہے ابھی ایک طلاق باقی ہے۔ کیا اس تمام صورت حال کے بعد بھی ہمارا نکاح برقرار ہے؟ اب وہ کہتا ہے کہ اگر طلاق چاہیے تو خلع دےدو ،کیا یہ خلع صحیح ہے؟ اگر خلع صحیح نہیں تو مجھے اپنا پورا مہر وصول کرنے کا حق ہے؟ واضح رہے! خلع میں وہ مہر کا مطالبہ کرتا ہے۔ تنقیح: شوہر سے فون پر بات ہوئی ہے۔ اس نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ صلح سے پہلے اس نے کوئی رجوع نہیں کیا تھا۔(شوہر کا بیان آڈیو کی صورت میں محفوظ ہے)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں پہلی طلاق اور صلح کے درمیان طلاق کی عدت پوری ہو چکی ہے۔ لہذا نکاح باقی نہیں رہا، اس لیے خلع کی ضرورت نہیں اور آپ کو پورا مہر وصول کرنے کا حق ہے۔اگر اس کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہیں تو از سرنو نکاح ہوگا، رجوع کا حق ختم ہو گیا ہے۔

حوالہ جات
وأما شرائط جواز الرجعة فمنها قيام العدة، فلا تصح الرجعة بعد انقضاء العدة؛ لأن الرجعة استدامة الملك، والملك يزول بعد انقضاء العدة،(بدائع الصنائع:3/183 (وأما) بيان ما يتأكد به المهر فالمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة:الدخول والخلوة الصحيحة وموت أحد الزوجين، سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط شيء منه بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، أما التأكد بالدخول فمتفق عليه، والوجه فيه أن المهر قد وجب بالعقد وصار دينا في ذمته، والدخول لا يسقطه؛ لأنه استيفاء المعقود عليه، واستيفاء المعقود عليه، يقرر البدل لا أن يسقطه كما في الإجارة؛ ولأن المهر يتأكد بتسليم المبدل من غير استيفائه لما نذكر فلأن يتأكد بالتسليم مع الاستيفاء أولى.(وأما) التأكد بالخلوة فمذهبنا.

عبدالمنعم بن سونا

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

1443-4-17

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالمنعم بن سونا

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب