021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کو معلق کرنے کا حکم
75095طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ (مسماۃ نرگس شاہین اور مسمی سعید جو کہ میاں بیوی ہیں) کے درمیان کچھ ناچاقی ہوئی، بات تکرار اور مار پیٹ تک پہنچ گئی،جس کی تفصیل طلب کرنے پر میاں بیوی نے علمائے کرام اور زعمائے برادری کی موجودگی میں یہ بیانات قلم بند کروائے: مسماۃ نرگس شاہین کا بیان: "رات کو مجھے مارتے رہے اور ساتھ کہتے رہے کہ بکری میری اجازت کے بغیر گھر کیوں لائی ہے؟ میں نے جوابا کہا کہ آپ کی امی کے مشورے سے لائی ہوں۔اس پر کہا کہ اگر مار پیٹ کا میرے کسی وارث کو بتایا تو "تجھے تین طلاق ہے"۔ جب صبح ہوئی تو چچا زین افسر ہمارے گھر آئے تو میں نے ان سے کہا کہ ان سے پوچھے مجھے کیوں مارا ہے؟ اور ساتھ طلاق مثلثہ کیوں بولی ہیں؟اس پر میرے شوہر نے کہا کہ رات کو صرف اپنے وارثوں کا کہا تھا، اب اگر کسی کو بھی بتایا تو "تجھے تین طلاق ہے" پھر مجھے پائپ اور پتھروں سے مار کر گھر سے بھگایا اور کہا کہ جاجا پرسوں آ کر اپنا مہر لے جانا"۔ مسمی محمد سعید کا بیان "میں حلفا قسما یہ بیان دیتا ہوں" میں نے رات کو صرف اس لیے مارا کہ میں والدہ کے کمرے میں کچھ دیر بیٹھا رہا۔ جب میں واپس اپنے کمرے میں آیا تو گھر والی سے کہا کہ مجھے کھانا دو تو اس نے کہا اب کوئی مسالنی(میری والدہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والی کوئی عورت) آکر کھانا دے گی۔میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ کھانا دو، اس نے نہیں دیا۔خیر بات ختم ہوگئی اور مجھے امی نے کھانا دیا۔ اس کے بعد باتو ں باتو ں میں میری اور بیوی کی لڑائی شروع ہو گئی، میں نے اسے دو تھپڑ اور دو جوتیا ں ماریں اور یہ الفاظ کہے:" میرے گھر کے کسی بھی فرد کی کوئی بات ہو جو آپ سے کچھ کہتا ہو یا لڑتا ہو تو ان کی بات مجھ سے مت کرو، از خود نمٹو،اگر کی تو میری طرف سے تین طلاق ہے"۔پھر رات گئی بات گئی اور ہم سوگئے۔ صبح کو چچا زرین افسر ہمارے گھر آئے، انہیں کوئی کام تھا۔انہوں نے آکر میرا پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ جوابا میری بیوی نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر کمبل میں چھپ گئے ہے۔ اس پر مجھے غصہ آگیا، میں نے اسے ایک تھپڑ مارا جس پر وہ چپکے سے بکریاں لے کر گھر سے چلی گئی، جس پر میں نے کہا: "تم جارہی ہو جا، اپنا مہر لے جانا"۔ میری نیت ان آخری الفاظ سے طلاق کی نہیں تھی،کیونکہ وہ مہر کا کئی بار مطالبہ کر چکی تھی۔ مسمی حاجی زرین افسر کا بیان: "میں صبح صبح سعید کے گھر کے نیچے سے گزر رہا تھا۔میں نے مسماۃ نرگس کو آواز دی کہ سعید کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا گھر پر ہی ہے۔ میں آگے جانے لگا تو نرگس نے کہا چچا اوپر آئیں۔ میں جب گھر آیا تو اس نے مجھ سے فون طلب کیا کہ میں نے کال کرنی ہے، اسی اثنا نرگس نے بتایا کہ محمد سعید نے رات کو میری پٹائی کی ہے، آپ اسے سمجھائیں۔ میں نے سعید کو سمجھانے کی کوشش کی تو سعید نے کہا کہ یہ میری اجازت کے بغیر بکری لائی ہے۔ اس پر بیوی نے کہا کہ ساس کی اجازت سے لائی ہوں۔ میں نے نرگس کو سمجھایا کہ اجازت لیا کرو۔میں گھر سے روانہ ہو رہا تھا اتنے میں نرگس بولی:"گھر میں گیس ،آٹا ختم تھا تو یہ مجھے میکے چھوڑ کر آگئے تھے"۔ اس پر سعید کو غصہ آگیا اور پتھر اٹھا کر دے مارا جو نرگس کو لگا اور ساتھ یہ الفاظ کہے:"میں نے اس کو پہلے بھی بہت دفعہ کہا ہوا ہے کہ اگر تم نے ایسی بات کسی سے کہی تو میری طرف سے فارغ یا طلاق ہے"۔ دونوں الفاظ میں شک ہے۔ با التعیین نہیں سن سکا"۔ مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں: 1. شوہر کے بیان کے مطابق " آپ جارہی ہو، جاؤ، اپنا مہر لے جانا" میں لفظ "جاؤ" کنایہ ہے جو محتمل رد ہے۔ اس میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہے یا دلالت حال کا؟ اور جملہ "اپنا مہر لے جانا" نیت کے قائم مقام ہے تو نیت دریافت کرنے کی شرعا ضرورت ہے یا نہیں؟ 2. شوہر کے اقرار کے مطابق " اگر میرے گھر کے کسی بھی فرد کی بات ہو،جو آپ سے کچھ کہتا ہو یا لڑتا ہو تو ان کی بات مجھ سے مت کرو، از خود نمٹو، اگر کی تو میری طرف سے تین طلاق ہے"۔ اس تعلیق کا شرعی حکم کیا ہے؟ ماضی و مستقبل کے حوالے سے۔ 3. عورت کا بیان کس حد تک قابل قبول ہے؟ اور عورت کے لیے اس کے بیان کے مطابق شرعی حکم کیا ہے؟ 4. گواہ کے بیانات مذکورہ مسئلے میں کس حد تک قابل قبول ہیں؟ مذکورہ سوالات کے جوابات قرآن و سنت کی روشنی میں عنایت فرمائیں۔جزاکم اللہ خیرا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1. حالت مذاکرہ طلاق نہیں ہے۔شوہر کا قول: "تم جارہی ہو، جاؤ، اپنا مہر لے جانا" میں لفظ "جاؤ" ان الفاظ کنایات میں سے ہے جو رد اور جواب دونوں احتمال رکھتے ہیں، اس میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہوگا نہ کہ دلالت حال کا۔اور شوہر کا یہ قول "اپنا مہر لے جانا" نہ کنایات میں سے ہے اور نہ ہی اس سے دلالت حال (یعنی مذاکرہ طلاق کی حالت )بنتی ہے۔لہذا اس قول سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ 2. تعلیق کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر شرط پائی گئی تو طلاق واقع ہوگی۔اب اگر شرط(میرے گھر کے کسی بھی فرد کی کوئی بات ہو جو تم سے کچھ کہتا ہو یا لڑتا ہوتو ان کی بات مجھ سے مت کرو، از خود نمٹو، اگر کی تو میری طرف سےتین طلاق ہے) پائی گئی ہے تو طلاق واقع ہوچکی ہے، اگر نہیں تو جب پائی جائے گی تب طلاق واقع ہوگی۔ 3. قضاء طلاق کے ثبوت کے لیے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں بطور گواہ ہونا ضروری ہیں۔ قضاءً طلاق کے ثبوت کے لیے صرف بیوی کی بات کافی نہیں ہے۔دیانۃً طلاق کے ثبوت کے لیے بیوی کا سننا بھی کافی ہے۔ لہذا بیوی کے بیان کے مطابق شوہر نے وارثوں کو بتانے پر طلاق کو معلق کیا تھا اور بیوی نے وہ بات چچا کو بتادی، اب دیانۃً بیوی نے جب تعلیق کے الفاط خود سنے اور شرط پائی گئی تو اس صورت میں بیوی اپنی ذات کے حق میں قاضی کی طرح ہے، لہذا بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کو اپنے پاس آنے سے روکے۔ 4. طلاق کو عدالت میں ثابت کرنے کے لیے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں بطور گواہ شرط ہیں، جبکہ دیانۃ ثبوت کے لیے ایک عادل گواہ بھی کافی ہے۔

حوالہ جات
باب الكنايات (كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب،فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب، أو لا ولا (فنحو اخرجي واذهبي وقومي) … (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، … لا يحتمل السب والرد، ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى. (وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الأول فقط) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو لأن مع الدلالة لا يصدق قضاء في نفي النية لأنها أقوى لكونها ظاهرة، والنية باطنة ولذا تقبل بينتها على الدلالة لا على النية إلا أن تقام على إقراره بها عمادية. (قوله فنحو اخرجي واذهبي وقومي) أي من هذا المكان لينقطع الشر فيكون ردا أو لأنه طلقها فيكون جوابا.(الدر المختار مع حاشیۃ ابن عابدین:3/301 وإن كانت حال مذاكرة الطلاق وسؤاله أو حالة الغضب والخصومة فقد قالوا: إن الكنايات أقسام ثلاثة: في قسم منها لا يدين في الحالين جميعا؛ لأنه ما أراد به الطلاق لا في حالة مذاكرة الطلاق وسؤاله ولا في حالة الغضب والخصومة، وفي قسم منها يدين في حال الخصومة والغضب ولا يدين في حال ذكر الطلاق وسؤاله، وفي قسم منها يدين في الحالين جميعا (أما) القسم الأول فخمسة ألفاظ: " أمرك بيدك " " اختاري " " اعتدي " " استبرئي رحمك " " أنت واحدة "؛ لأن هذه الألفاظ تحتمل الطلاق وغيره والحال يدل على إرادة الطلاق؛ لأن حال الغضب والخصومة إن كانت تصلح للشتم والتبعيد كما تصلح للطلاق فحال مذاكرة الطلاق تصلح للتبعيد والطلاق، لكن هذه الألفاظ لا تصلح للشتم ولا للتبعيد فزال احتمال إرادة الشتم والتبعيد فتعينت الحالة دلالة على إرادة الطلاق فترجح جانب الطلاق بدلالة الحال فثبتت إرادة الطلاق في كلامه ظاهرا فلا يصدق في الصرف عن الظاهر كما في صريح الطلاق إذا قال لامرأته: أنت طالق ثم قال: أردت به الطلاق عن الوثاق لا يصدق في القضاء لما قلنا كذا هذا. (وأما) القسم الثاني فخمسة ألفاظ أيضاخلية " " بريئة " " بتة " " بائن " " حرام "؛ لأن هذه الألفاظ كما تصلح للطلاق تصلح للشتم، فإن الرجل يقول لامرأته عند إرادة الشتم: أنت خلية من الخير، بريئة من الإسلام، بائن من الدين، بتة من المروءة، حرام أي مستخبث، أو حرام الاجتماع والعشرة معك. وحال الغضب والخصومة يصلح للشتم ويصلح للطلاق فبقي اللفظ في نفسه محتملا للطلاق وغيره، فإذا عني به غيره فقد نوى ما يحتمله كلامه، والظاهر لا يكذبه فيصدق في القضاء ولا يصدق في حال ذكر الطلاق؛ لأن الحال لا يصلح إلا للطلاق؛ لأن هذه الألفاظ لا تصلح للتبعيد، والحال لا يصلح للشتم فيدل على إرادة الطلاق لا التبعيد ولا الشتم فترجحت جنبة الطلاق بدلالة الحال. وروي عن أبي يوسف أنه زاد على هذه الألفاظ الخمسة خمسة أخرى: لا سبيل لي عليك فارقتك خليت سبيلك لا ملك لي عليك بنت مني لأن هذه الألفاظ تحتمل الشتم كما تحتمل الطلاق فيقول الزوج لا سبيل لي عليك لشرك وفارقتك في المكان لكراهة اجتماعي معك وخليت سبيلك وما أنت عليه ولا ملك لي عليك لأنك أقل من أن أتملكك وبنت منى لأنك بائن من الدين أو الخير وحال الغضب يصلح لهما، وحال ذكر الطلاق لا يصلح إلا للطلاق لما ذكرنا فالتحقت بالخمسة المتقدمة. (وأما) القسم الثالث فبقية الألفاظ التي ذكرناها؛ لأن تلك الألفاظ لا تصلح للشتم وتصلح للتبعيد والطلاق؛ لأن الإنسان قد يبعد الزوجة عن نفسه حال الغضب من غير طلاق وكذا حال سؤال الطلاق فالحال لا يدل على إرادة أحدهما فإذا قال: ما أردت به الطلاق فقد نوى ما يحتمله لفظه، والظاهر لا يخالفه فيصدق في القضاء.بدائع الصنائع:3/107 وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق.(الہندیۃ:1/420) و) نصابها (لغيرها من الحقوق سواء كان) الحق (مالا أو غيره كنكاح وطلاق ولو (للإرث رجلان) (أو رجل وامرأتان) . )الدرالمختار:5/465( والمرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا سمعت منه ذلك أو شهد به شاهد عدل عندها.

عبدالمنعم بن سونا

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

1443.5.17

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالمنعم بن سونا

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب