74949 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | دلال اور ایجنٹ کے احکام |
سوال
زید زمین ایک لاکھ کی فروخت کر رہا تھا۔ عمر نے اس سے کہا میں اس کے لیے بندہ ڈھونڈتا ہوں، میں اس کی قیمت ایک لاکھ پچاس ہزار بتاؤں گا، ایک لاکھ آپ کے اور پچاس ہزار میرے ہوں گے۔ کیا یہ معاملہ جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں اگر زید اور عمر کے درمیان یہ طے ہو کہ زمین ایک لاکھ پچاس ہزار کی ہی بیچی جائے گی (اس سے کم میں نہیں)، پھر اس میں سے ایک لاکھ زید کو اور پچاس ہزار عمر کو ملیں گے تو یہ صورت جائز ہے۔
لیکن اگر معاملہ اس طرح ہو کہ زمین کی قیمت میں سے ایک لاکھ زید کو ملیں گے، ایک لاکھ سے زائد عمر کو ملیں گے، چاہے وہ پچاس ہزار ہو یا پچاس ہزار سے کم یا زیادہ، تو یہ صورت جمہور علمائے کرام کے نزدیک جائز نہیں، اور یہی حضراتِ حنفیہ رحمہم اللہ تعالیٰ کا مسلک ہے۔ لہٰذا اس طرح کمیشن مقرر کرنے کے بجائے متعین رقم یا کل قیمتِ فروخت کا متعین فیصدی حصہ بطورِ کمیشن مقرر کریں۔
حوالہ جات
صحيح البخاري (3/ 92):
باب أجر السمسرة: ولم ير ابن سيرين وعطاء وإبراهيم والحسن بأجر السمسار بأسا، وقال ابن عباس: لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك. وقال ابن سيرين: إذا قال "بعه بكذا، فما كان من ربح فهو لك أو بيني وبينك" فلا بأس به. وقال النبي صلى الله عليه وسلم المسلمون عند شروطهم.
عمدة القاري (18/ 285):
وقال ابن عباس: لا بأس أن يقول بع هذا الثوب فما زاد على كذا وكذا فهو لك. هذا التعليق وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن عمرو بن دينار عن عطاء عن ابن عباس نحوه. وقال ابن سيرين: إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك أو بيني وبينك فلا بأس به. هذا التعليق أيضا وصله ابن أبي شيبة عن هشيم عن يونس عن ابن سيرين. وفي ( التلويح ): وأما قول ابن عباس وابن سيرين فأكثر العلماء لا يجيزون هذا البيع، وممن كرهه الثوري والكوفيون، وقال الشافعي ومالك لا يجوز، فإن باع فله أجر مثله، وأجازه أحمد وإسحاق، وقالا هو من باب القراض، وقد لا يربح المقارض.
المجلة (ص: 107):
مادة 578: لو أعطى أحد ماله للدلال وقال: بعه بكذا دراهم، فإن باعه الدلال بأزيد من ذلك فالفاضل أيضا لصاحب المال، وليس للدلال سوى الأجرة.
شرح المجلة للعلامة الأتاسی (2/677):
أی أجرة المثل بالغة ما بلغت لو لم یکن سمی له أجرۃ، و لا تزید علی المسمی لو کان سمی؛ لفساد الإجارة من کل وجه کما علمت. بقی ما لو قال للدلال: بعه بعشرة و ما زاد فهو لك أجرة، و الظاهر أنه لا أجر له أصلا لو باعه بعشرة أو لم یبع؛ لأنه لم یجعل له أجرة علی ذلك. و لو باعه بزیادة فله أجر مثله، ؛لا یزید علی تلك الزیادة، نظیر ما لو قال: بعه بکذا و ما زاد بینی و بینك مناصفة، کما قدمناه عن الخانیة فی شرح المادة (563)، و هو قول أبی یوسف المفتی به، فراجعه.
رد المحتار (6/ 63):
مطلب في أجرة الدلال، تتمة: قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
18/جمادی الاولی /1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |