021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹرک ڈرائیوروں سے لوڈ دینے کے عوض پیسے لینا
75115اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلملازمت کے احکام

سوال

ایک کمپنی ہے جو کریٹ، میخ، شالی (کریٹ میں پھلوں کے نیچے بچھائی جانے والی گھاس)، کاغذ، دوا، اسپرے وغیرہ کا کام کرتی ہے۔ وہ زمین داروں کو یہ چیزیں دیتی ہے، اور ان کا مال کوٹی والوں کو بھیجتی ہے۔ لوگ اپنا مال مثلا سیب، زرد آلو، چیری، آلو، پیاز وغیرہ کمپنی کو دیتے ہیں، کمپنی ٹرک وغیرہ بھیج کر مالکان سے مال وصول کرتی ہے اور پھر بذریعہ ٹرک کوٹی والوں کو بھیجتی ہے۔  

کمپنی ٹرک والوں کو کرایہ کی رسید دیتی ہے جسے بلٹی کہتے ہیں، اور ٹرک والے سے 3 ہزار یا 5 ہزار کمیشن لوڈ دینے کی مد میں وصول کرتی ہے جو مزدور کے علاوہ کمپنی اپنے فائدہ کے لیے بطورِ دلالی لیتی ہے۔ مثلا کمپنی ٹرک والے کو ملتان تک 20 ہزار کا کرایہ لکھ دیتی ہے اور اس سے 3 یا 5 ہزار وصول کرلیتی ہے۔ ٹرک ڈرائیور مال لے جاکر کوٹی والے کے حوالے کردیتا ہے اور اس سے 20 ہزار کرایہ وصول کرلیتا ہے۔ کوٹی والا یہ 20 ہزار مالکِ کریٹ کے کھاتے میں لکھ دیتا ہے، اور پھر مال فروخت ہونے پر مالکِ کریٹ سے وصول کرتا ہے۔

کمپنی والوں سے پوچھا گیا کہ آپ ٹرک والوں کو لوڈ دینے پر رقم کیوں لیتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے، ایک تو ہم ٹرک والے کو لوڈ دیتے ہیں، دوسرا اگر مالک کے مال سے کچھ کریٹ غائب ہوجائیں تو گم شدہ کریٹوں کی ذمہ داری ہم پر ہوتی ہے، ہم پھر مالکان کو ان کریٹوں کی ادائیگی اس رقم سے کرتے ہیں جو ہم ٹرک والوں سے وصول کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا کمپنی والوں کا اس طرح کرنا درست ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں کمپنی والوں کا ٹرک ڈرائیوروں کو لوڈ دینے کی وجہ سے ان سے پیسے لینا شرعا جائز نہیں، کیونکہ ٹرک ڈرائیور اور کمپنی کے درمیان ہونے والا معاملہ عقدِ اجارہ ہے، ڈرائیور کو لوڈ دینا خود عقدِ اجارہ کا تقاضا ہے، اور جو کام عقد کی وجہ سے لازم ہو، اس پر الگ سے کچھ لینا رشوت کے  زمرے میں

داخل ہے، جس سے اجتناب واجب ہے۔  

جہاں تک لوڈنگ کا تعلق ہے تو اگر کمپنی والے ٹرک ڈرائیوروں سے کہہ دیں کہ لوڈنگ بھی آپ کی ذمہ داری ہوگی یا وہ صراحتًا نہ کہیں، لیکن عرف اور مارکیٹ میں یہ ٹرک ڈرائیوروں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہو تو پھر لوڈنگ ان پر لازم ہوگی، چاہے وہ خود کریں یا مزدور کو پیسے دے کر ان سے کرائیں۔ لیکن اگر عقد میں مال لوڈ کرنا ڈرائیور کے ذمے مشروط نہ ہو، اور عرف میں بھی یہ ٹرک ڈرائیور کی ذمہ داری نہ سمجھی جاتی ہو، بلکہ اس کا کام صرف مال ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہو، تو پھر لوڈنگ اور اس کی اجرت کمپنی والوں پر لازم ہوگی، ڈرائیوروں سے اس مد میں رقم وصول کرنا جائز نہیں ہوگا۔  

رہی نقصان کی بات تو اس کی تلافی کے لیے بھی ڈرائیوروں سے رقم لینا جائز نہیں۔ البتہ اگر کسی ٹرک ڈرائیور کی تعدی (زیادتی) یا تقصیر (کوتاہی) کی وجہ سے کوئی نقصان ہو تو اس ڈرائیور سے صرف نقصان کے بقدر ضمان لینا جائز ہوگا۔ اگر ٹرک ڈرائیور کا قصور وار یا بے قصور ہونا واضح نہ ہو تو آدھے نقصان کی حد تک صلح کرنے کی بھی گنجائش ہے۔   

حوالہ جات
إعلاءالسنن(14/6635):
والحاصل:أن حد الرشوة هوما يؤخذ عماوجب علي الشخص سواءكان واجباًعلی العين أوعلی الكفاية، وسواء كان واجباً حقاً للشرع كما في القاضي وأمثاله………...أو كان واجباً عقداً كمن آجر نفسه لإقامة أمر من الأمور المتعلقة بالمسلمين فيما لهم،أو عليهم كأعوان القاضى، وأهل الديوان وأمثالهم.
المجلة (ص: 21):
مادة 44: المعروف بين التجار كالمشروط بينهم.
شرح المجلة للأتاسی (1/101):
شرح المادة 44: فما یقع بین التجار من المعاملات التجاریة، أو بین غیر هم من العقود و المعاملات التی هی من نوع التجارة، ینصرف عند الإطلاق إلی العرف و العادة…….… و لا یتو هم من هذ ه المادة قصر العمل بالعرف فی الأمور التجاریة علی ما یجری بین التجار فقط، بل المراد أن کل عمل هو من نوع التجارة إذا سکت فیه عن قید، فالمرجع فی ذلك العرف الجاری بین التجار.
شرح القواعد الفقهية ــ للزرقا (ص: 134):
( د ) وكذا يعتبر العرف في أن الحمال يدخل المحمول إلى داخل الباب أولا.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

23/جمادی الاولی /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب