021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مالکِ باغ کو اس شرط پر قرض دینا کہ وہ پھل قرض خواہ کے پاس لائے گا
75117خرید و فروخت کے احکامقرض اور دین سے متعلق مسائل

سوال

کوٹی والے کمپنی والے کو 10 لاکھ روپے پیشگی دے کر کہہ دیتے ہیں کہ یہ رقم لوگوں کو پیشگی دو؛ تاکہ وہ مالک میری کوٹی میں لائیں۔ مالکِ مال اگر کمپنی سے یہ رقم پیشگی وصول کر کے پھر اپنا مال کمپنی کو دے تاکہ وہ اسی کوٹی والے کو دے تو مالکِ مال کے لیے اس میں کوئی خرابی ہے یا نہیں؟ حالانکہ کوٹی والے کے لیے مالک مجہول ہے کہ کمپنی نے کس کس کو وہ رقم دی ہے، لیکن شرط ہے۔ کیا یہ جائز ہے؟ اور اس کا کوئی حیلہ ہو سکتا ہے؟ یا اگر مالکِ مال خود کوٹی والے سے کہے کہ مجھے دو لاکھ پیشگی دو، مال پک جانے پر میں مال آپ کی کوٹی کو دوں گا۔ شرط آگئی ہے تو کیا یہ معاملہ جائز ہے؟ اور اس کا کوئی حیلہ ہو سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کردہ دونوں صورتوں کا حاصل یہ ہے کہ کوٹی والے زمین داروں کو اس شرط پر قرضہ دیتے ہیں کہ وہ اپنا پھل اور فصل بیچنے کے لیے ان کی کوٹی پر لائیں گے، فرق صرف یہ ہے کہ پہلی صورت میں وکیل کے واسطے سے قرض دیتے ہیں، جبکہ دوسری صورت میں خود براہِ راست قرض دیتے ہیں۔ قرض میں اس طرح کی شرط لگانا جائز نہیں، تاہم اس سے قرض کے معاملے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بلکہ شرط لغو ہوجاتی ہے۔

 لہٰذا صورتِ مسئولہ میں حکمِ شرعی یہ ہے کہ کوٹی والے قرض میں یہ شرط نہ لگائیں، اور جہاں اس طرح کرنے کا عرف ہو تو وہاں صراحتًا اس بات کی نفی کردیں کہ ہمارے درمیان یہ شرط لاگو نہیں ہوگی، بعد میں اگر مالکان اخلاقی ذمہ داری سمجھ کر اپنی مرضی سے پھل اسی کوٹی پر لے جائیں جس سے انہوں نے قرض لیا ہو تو اس کی گنجائش ہے۔

اگر کوٹی والے قرض میں یہ شرط لگالیں تومالکان پر اپنا پھل اسی کوٹی پر لے جانا ضروری نہیں ہوگا، البتہ اگر وہ اپنا مال اسی کوٹی پر لے جائیں اور کوٹی والے مال خود خریدنے کی صورت میں ثمنِ مثل پر خریدیں اور کسی اور کو بکوانے کی صورت میں اتنا ہی کمیشن لیں جتنا عام طور پر لیا جاتا ہو تو حکمِ شرعی کی خلاف ورزی کرنے کا گناہ تو ہوگا، لیکن پھل خریدنا، اور کمیشن لینا حرام نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کوٹی والے قرض دینے کی وجہ سے مالکان سے پھل سستے داموں خرید لیں، یا کسی اور کو بکوانے کی صورت میں کمیشن زیادہ لیں تو یہ سستے داموں خریدنا اور زیادہ کمیشن لینا قرض پر نفع ہونے کی وجہ سے سود میں داخل ہوگا، جو کہ حرام اور ناجائز ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار، فصل فی القرض (5/ 165):
(و) فیها (القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط رد شيء آخر فلو استقرض الدراهم المكسورة على أن يؤدي صحيحا كان باطلا) وكذا لو أقرضه طعاما بشرط رده في مكان آخر (وكان عليه مثل ما قبض) فإن قضاه أجود بلا شرط جاز ويجبر الدائن على قبول الأجود وقيل لا، بحر.  وفي الخلاصة: القرض بالشرط حرام والشرط لغو، بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا لیوفی دینه.  
وفي الأشباه: كل قرض جر نفعا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.
رد المحتار (5/ 165):
 قوله ( وفيها ) أي في الخانية معطوف على قوله "وفيها".  قوله ( شرط رد شيء آخر ) الظاهر أن أصل العبارة كشرط رد شيء آخر ا هـ ح.
الفتاوى الهندية (3 / 202):
قال محمد رحمه الله تعالى في كتاب الصرف: إن أبا حنيفة رحمه الله تعالى كان يكره كل قرض جر منفعة.
قال الكرخي: هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك، فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه المستقرض أجود مما عليه فلا بأس به. وكذلك إذا أقرض رجلا دراهم أو دنانير ليشتري المستقرض من المقرض متاعا بثمن غال فهو مكروه. وإن لم يكن شراء المتاع مشروطا في القرض ولكن المستقرض اشترى من المقرض بعد القرض بثمن غال فعلى قول الكرخي لا بأس به، وذكر الخصاف في كتابه وقال: ما أحب له ذلك، وذكر شمس الأئمة الحلواني أنه حرام، وذكر محمد رحمه الله تعالى في كتاب الصرف أن السلف كانوا يكرهون ذلك. إلا أن الخصاف لم يذكر الكراهة، إنما قال لا أحب له ذلك، فهو قريب من الكراهة، لكنه دون الكراهة، ومحمد رحمه الله تعالى لم ير بذلك بأسا؛ فإنه قال في كتاب الصرف: المستقرض إذا أهدى للمقرض شيئا لا بأس به من غير فصل، فهذا دليل على أنه رفض قول السلف. قال شيخ الإسلام خواهر زاده رحمه الله تعالى: ما نقل عن السلف محمول على ما إذا كانت المنفعة وهي شراء المتاع بثمن غال مشروطة في الاستقراض، وذلك مكروه بلا خلاف، وما ذكر محمد رحمه الله تعالى محمول على إذا لم تكن المنفعة وهي الهدية مشروطة في القرض، وذلك لا يكره بلا خلاف.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

23/جمادی الاولی /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب