021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
غیر مسلم ممالک میں نمازِ جمعہ کا حکم
75103نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

جرمنی میں کچھ لوگ جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں، کچھ لوگ صرف ظہر کی نماز پڑھتے ہیں، اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو جمعہ اور ظہر دونوں نمازیں پڑھتے ہیں، اور حجت ڈاکٹر اسرار صاحب کے قول کو بناتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہے کہ جرمنی چونکہ دار الحرب کے حکم میں ہے، اس لیے اسلامی ریاست نہ ہونے کی وجہ سے وہاں جمعہ جائز نہیں؛ کیونکہ اسلامی ریاست نمازِ جمعہ کی شرائط میں سے ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اسلامی ریاست اور مسلمان حاکم کا ہونا نمازِ جمعہ کی لازمی شرائط میں سے نہیں ہے، بلکہ جہاں مسلمان حاکم نہ ہو وہاں مسلمان اپنا امامِ جمعہ مقرر کر کے جمعہ پڑھیں گے۔ لہٰذا غیر مسلم ملک میں جہاں نمازِ جمعہ کی شرائط موجود ہوں، وہاں جمعہ پڑھنا واجب ہے، ظہر کی نماز پڑھنا درست نہیں۔

  (باستفادۃٍ من فتاویٰ دار العلوم دیوبند:5/61-59، و تالیفاتِ رشیدیہ:346)

حوالہ جات
رد المحتار (2/ 138):
لو مات الوالي أو لم يحضر لفتنة ولم يوجد أحد ممن له حق إقامة الجمعة، نصب العامة لهم خطيبا للضرورة كما سيأتي، مع أنه لا أمير ولا قاضي ثمة أصلًا، وبهذا ظهر جهل من يقول لا تصح الجمعة في أيام الفتنة، مع أنها تصح في البلاد التي استولى عليها الكفار كما سنذكره، فتأمل.
رد المحتار (2/ 144):
تتمة: في معراج الدراية عن المبسوط: البلاد التي في أيدي الكفار بلاد الإسلام لا بلاد الحرب؛ لأنهم لم يظهروا فيها حكم الكفر، بل القضاة والولاة مسلمون يطيعونهم عن ضرورة أو بدونها، وكل مصر فيه وال من جهتهم يجوز له إقامة الجمع والأعياد والحد وتقليد القضاة لاستيلاء المسلم عليهم. فلو كان الولاة كفارا يجوز للمسلمين إقامة الجمعة، ويصير القاضي قاضيا بتراضي المسلمين، ويجب عليهم أن يلتمسوا واليا مسلما، آه.
الدر المختار (2/ 137):
وفي البحر: وقد أفتيت مرارا بعدم صلاة الأربع بعدها بنية آخر ظهر خوف اعتقاد عدم فرضية الجمعة، وهو الاحتياط في زماننا.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

24/جمادی الاولیٰ /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب