021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کاریز بمع نمبری زمین کی بیع میں شاملاتی زمین داخل ہوگی یا نہیں؟
75118خرید و فروخت کے احکامجو چیز تبعاً فروخت کی جانے والی چیز میں خود بخود داخل ہوتی ہے

سوال

محسن خان نامی ایک شخص نے 1955ء سے پہلے ملک اول خان اور حیدر خان سے کاریز فیروزی کان کے 12 گھنٹے پانی بمع نمبری زمین کے خریدی تھی۔ کاریز فیروزی کان کی کچھ شاملات، غیر آباد زمینیں ہیں جو کہ خارج از لائن ہیں، بیع میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا، نہ ہی کوئی سٹام پیپر موجود ہے۔

اب بائع یعنی ملک اول خان اور حیدر خان کے ورثا مشتری کے ورثا کو غیر آباد زمین میں حصہ داری دینے سے انکاری ہیں اور کہتے ہیں کہ تم صرف آبی زمین بمعہ 12 گھنٹے پانی کے حق دار ہو، نہ کہ غیر آباد شاملات کے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شاملات میں مشتری یعنی محسن خان کے ورثا کا کوئی حق نہیں؛ کیونکہ ملک اول خان اور حیدر خان نے محسن خان کو کاریز کی نمبری زمین بمع 12 گھنٹے پانی فروخت کی تھی، غیر آباد زمین جو اب تک تقسیم نہیں ہوئی ہے، سے محسن خان کے ورثا کا کوئی تعلق نہیں، وہ اول خان اور حیدر خان کے ورثا کا اپنا حق ہے۔

جبکہ مشتری یعنی محسن خان کے ورثا غیر آباد شاملات کی زمین کے بھی دعویدار ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بیرون از لائن غیر آباد زمین بھی تقسیم میں آبی زمین کے تابع ہے، وہ کاریز کے پانی پر تقسیم ہوتی ہے، اور کاریز کا پانی ہمارے پاس ہے۔  

فریقین میں سے کسی کے پاس عدالتی سٹام پیپر یا دیگر ضروری دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ 1955ء کے بعد 12 گھنٹے پانی بمع زمین کا انتقال محسن خان کے نام پر ہے۔

اصولاً بیرون از لائن شاملات غیر نمبری زمین جب تک آباد نہ کی جائے، کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتی، نہ بائع کی نہ مشتری کی۔ بلکہ اس غیر آباد زمین پر کاریز کے تمام باشندوں کا حق ہے، اور بائع کے ورثا بھی تمام باشندوں میں شامل ہیں۔ جبکہ مشتری کے ورثا، بائع کے ورثا کا مجہول حصۂ شاملات، آبی زمین کے تابع تصور کرتے ہیں اور تقسیمِ شاملات کے وقت اس کو اپنے نام کروانا چاہتے ہیں۔  

سوال یہ ہے کہ شاملات، تقسیم کے وقت بائع کے ورثا کا حق بنتا ہے یا مشتری کے ورثا کا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ سوال کے جواب سے پہلے اراضئ شاملات کی کچھ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے، اراضئ شاملات سے متعلق مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم ایک عدالتی فیصلے میں تحریر فرماتے ہیں:

شاملات در اصل وہ غیر آباد زمینیں ہوتی ہیں جو کسی گاؤں یا بستی کے قریب واقع ہوں۔ رواج یہ رہا ہے کہ جب کوئی خاندان کوئی گاؤں آباد کرتا تو وہ گاؤں کے قریب واقع غیر آباد زمینوں کے ایک حصے کو گاؤں سے منسلک کردیتا، اور اس کو گاؤں کی مشترک ملکیت سمجھا جاتا تھا، اسی مشترک ملکیت کو "شاملات" کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "شاملات" کا ایک بڑا حصہ تو بنجر اور غیر آباد زمین پر مشتمل ہوتا ہے، "مالکانِ دیہہ" جب گاؤں آباد کرتے ہیں تو یہ زمین کسی کی ملکیت میں نہیں ہوتی، بلکہ لا وارث پڑی ہوتی ہے، ایسی زمین کو عربی میں "موات (مردہ) یا "عادی الارض" (لا وارث زمین) کہا جاتا ہے، اور اس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے متعدد احادیث میں یہ اصول طے فرما دیا ہے کہ ایسی زمین اس وقت تک کسی شخص یا اشخاص کی انفرادی ملکیت میں نہیں آسکتی جب تک وہ اس زمین کو آباد نہ کر لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی مردہ  (غیر آباد، غیر مملوک)  زمین پر کسی انسان کی ملکیت قائم ہونے کا ایک ہی راستہ متعین فرمادیا ہے، اور وہ یہ کہ وہ اسے آباد کرے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص ایسی زمین کا کچھ حصہ آباد تو نہیں کرتا، لیکن نزدیک کی زمین کو آباد کر کے اس غیر آباد زمین کو بھی اپنی ملکیت قرار دینا چاہے تو اسلامی احکام کی رو سے وہ ایسا نہیں کرسکتا، اور اس طرح وہ زمین اس کی ملکیت شمار نہیں ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

 "شاملات" کے بارے میں اسلامی احکام کا خلاصہ یہ ہے کہ گاؤں کے متصل اتنی زمین جو گاؤں والوں کی مشترکہ ضرورتوں، مثلا چراگاہ یا ایندھن کے حصول وغیرہ کے لیے ضروری ہو، وہ کسی شخص کی ملکیت نہیں ہوسکتی، نہ اس میں نو توڑ کر کے کسی کے لیے اس کا مالک بننا جائز ہے، اس کے بجائے یہ زمین پورے گاؤں کی مشترکہ زمین ہوگی، جس میں تمام باشندوں کا مساوی حق ہوگا۔ اس قسم کے رقبۂ زمین کی حد بندی حکومت بھی کرسکتی ہے، اور گاؤں والے باہمی رضامندی سے بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس محدود رقبۂ زمین کے علاوہ شاملات کی جتنی غیر آباد زمینیں ہیں، ان میں گاؤں کے تمام باشندوں کا حق ہے، اور گاؤں کے تمام باشندے خواہ زمین دار ہوں یا کاشت کار، ان زمینوں میں نو توڑ کا حق رکھتے ہیں۔ اس حق کے استعمال کو منظم بنانے کے لیے حکومت قواعد بناسکتی ہے، اور یہ شرط بھی عائد کرسکتی ہے کہ نو توڑ کے لیے حکومت سے اجازت لینی ضروری ہوگی  (بشرطیکہ اجازت لینے کا عمل اتنا دشوار نہ ہو کہ عوام کے لیے اجازت کا حصول بہت مشکل ہوجائے، اور صرف با اثر لوگ ہی اجازت سے فائدہ اٹھا سکیں)،  لیکن ان قواعد کے مطابق جو شخص بھی ان اراضی میں نو توڑ کرلے گا، وہ اتنی زمین کا مالک قرار پائے گا جو اس نے آباد کرلی ہو، اور اس میں کاشت کرنے کے بعد مالکانِ دیہہ یا گاؤں کے کسی اور زمین دار کو کسی قسم کا لگان، کرایہ یا بٹائی دینے کا پابند نہیں ہوگا، خواہ وہ نو توڑ کرنے والا گاؤں کا کوئی زمین دار ہو، یا کاشت کار۔ نیز شاملات کے اس علاقے کے درختوں کا جو "مالکانہ" فی الحال حکومت کی طرف سے دیا جارہا ہے، اس کے حق دار صرف مالکانِ دیہہ نہیں، بلکہ گاؤں کے تمام باشندے ہیں، خواہ وہ زمین دار ہوں یا کاشت کار، اور یہ گاؤں کے تمام باشندوں کے درمیان تقسیم ہونا چاہیے۔  

(عدالتی فیصلے:2/282-266)۔

مندرجہ بالا اقتباس اور سوالنامہ میں ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ شاملاتی زمین بائع اور مشتری میں سے کسی کی ملکیت نہیں تھی؛ لہٰذا ان دونوں کے ورثا بطورِ وراثت اس زمین کے حق دار نہیں۔ البتہ اس زمین کے قرب و جوار میں رہنے کی وجہ سے انہیں دیگر باشندوں کی طرح حقوق ملیں گے؛ لہٰذا:-  

(1)۔۔۔ اگر مذکورہ شاملاتی زمین ایسی ہے جس کے ساتھ آس پاس گاؤں یا آبادی کی ضروریات مثلا چراگاہ، ایندھن وغیرہ متعلق ہوں تو پھر یہ زمین کسی کی ملکیت نہیں ہوسکتی، یہ اسی طرح رہے گی، اور اس گاؤں اور آبادی کے تمام باشندے اس سے نفع اٹھانے کے حق دار ہوں گے، بائع اور مشتری دونوں کے ورثا بھی باشندے ہونے کی حیثیت سے اس سے نفع اٹھاسکتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی اس زمین کا نہ مالک ہے، نہ بن سکتا ہے۔  

(2)۔۔۔ اور اگر اس شاملاتی زمین کے ساتھ کسی گاؤں یا آبادی کا کوئی حق متعلق نہیں ہے تو پھر یہ شرعا "ارضِ موات" ہے جو آباد کرنے سے پہلے کسی بھی شخص کی ملکیت نہیں ہوتی، نہ بائع کے ورثا کی، نہ مشتری کے ورثا کی۔ لہذا حکومت کے وضع کردہ مناسب قوانین کے مطابق جو شخص اس میں سے جتنی زمین سب سے پہلے آباد کرے گا وہ اس کی ملکیت قرار پائے گی۔  

حوالہ جات
المجلة، الفصل الخامس فی إحیاء الموات (ص: 244):
مادة 1270: الأراضي الموات هي الأراضي التي ليست ملكا  لأحد، ولا هي مرعى ولا محتطبا
لقصبة أو قرية، وهي بعيدة عن أقصى العمران، يعني أن جهير الصوت لو صاح من أقصى الدور التي في طرف تلك القصبة أو القرية لا يسمع منها صوته
 مادة 1271: الأراضي القريبة من العمران تترك للأهالي مرعى ومحتصدا ومحتطبا،  ويقال لها "الأراضي المتروكة".  

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

24/جمادی الاولی /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب