021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میت منتقلی کا حکم
73162جنازے کےمسائلمردوں اور قبر کے حالات کا بیان

سوال

ہمارے آباؤ اجداد کی قبریں خانپور ڈیم میں ڈوب گئی تھیں ۔اب جبکہ ڈیم کی سطح نیچے چلی گئی ہے اور وہ قبریں نظر آنے لگی ہیں جن میں سے ایک کی دیوار بھی گری ہوئی ہے ۔ کیاہم ان قبروں کی قبر کشائی کر کے میتوں کو دوسری جگہ منتقل کر کے تدفین کر سکتے ہیں؟ یا ان قبروں کی مرمت کر کے محفوظ بنا دیا جائے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب میت کو ایک مرتبہ قبر میں دفن کر دیا جائے تو پھر بغیر کسی   شرعی  ضرورت کے میت کو قبر سے نکال دوسری جگہ منتقل کرنا جائز نہیں۔شرعی ضرورت سے مراد یہ ہے کہ جیسے مغصوبہ زمین میں کسی کو دفن کیا گیا ہو یا مالکِ زمین  کی اجازت کے بغیر اس کی زمین میں دفن کیا گیا ہو اور مالک بعد میں اجازت بھی نہ دے۔

مذکورہ صورت میں ایسی کوئی شرعی ضرورت نہیں پائی جاتی ، اس لیے ان قبروں کو ادھر ہی مٹی ڈال کر محفوظ کر دیا جائے۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210)
 ولا يخرج من القبر إلا أن تكون الأرض مغصوبة) أي بعد ما أهيل التراب عليه لا يجوز إخراجه لغير ضرورة للنهي الوارد عن نبشه وصرحوا بحرمته وأشار بكون الأرض مغصوبة إلى أنه يجوز نبشه لحق الآدمي كما إذا سقط فيها متاعه أو كفن بثوب مغصوب أو دفن في ملك الغير أو دفن معه مال أحياء لحق المحتاج قد «أباح النبي - صلى الله عليه وسلم - نبش قبر أبي رعال لعصا من ذهب معه»
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 210)
 ولو بلي الميت وصار ترابا جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه.
 

  محمد عبدالرحمن ناصر

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

20/10/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبدالرحمن ناصر بن شبیر احمد ناصر

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب