021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سودی بینک کے ملازمین کو چائے بیچنے کا حکم
73222خرید و فروخت کے احکاماموال خبیثہ کے احکام

سوال

ہمار انیشنل بینک آف پاکستان (سودی بینک) کے ساتھ چائے خانہ ہے۔ اب چائے کی مد میں جو رقم بنک یا اس کے ملازمین ہمیں ادا کریں گے وہ ہمارے لئے حلال ہے یا حرام؟ اس کے بارے میں وضاحت فرما دیں۔

 اور جس شخص کے بارے میں معلوم ہوکہ اس کی آمدنی حلال نہیں لیکن ہم سے حلال چیز مثلا چائے خریدتے ہیں  اب یہ رقم ہمارے لئے کیا حیثیت رکھتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  • اگر بینک کے ملازمین بینک کے کھاتہ سے چائے منگواتے ہیں  ،تو چائے ان کو بیچنا جائز ہے ۔ کیونکہ بینک اگرچہ سودی ہو لیکن اس میں زیادہ تر مال ڈیپازٹس(امانتوں ) کا ہوتا ہے جو کہ حلال ہوتا ہے، لہذا حلال غالب ہونے کی وجہ سے ان کو چائے وغیرہ فروخت کرنا جائز ہے۔((کذا فی عبارۃ:۱))
  • اور اگر بینک کے ملازمین اپنی تنخواہ سے چائے منگواتے ہیں تو اس کی دوصورتیں ہیں:
  1. ایسے ملازمین جن کا براہ راست سودی معاملات سے تعلق ہو جیسا کہ بینک منیجر اور کیشئر وغیرہ اور ان کا کوئی او رذریعہ آمدن بھی نہ ہو تو ان کی تنخواہ  حرام ہے ،ان کو چائے بیچنا یا ان کے  ساتھ خریدوفروخت کا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔
  2. ایسے ملازمین جن کا براہ راست سودی معاملات سے تعلق نہ  ہو جیسا کہ چوکیدار ،ڈرائیور وغیرہ تو ان کو چائے بیچنا یا ان کے  کے ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ کرنا جائز ہے۔((کذا فی عبارۃ:۲))
  • جس شخص کے بارے میں علم ہو کہ اس کا مال حرام ہے،مثلا: غصب ،رشوت اور سود وغیرہ کا مال ہے۔اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور مال نہیں تواس کے کوئی چیز بیچ کر حاصل کردہ مال استعمال کرنا جائز نہیں۔وہ مال اس کے مالک کو واپس کیا جائے اور اگر مالک نہ ملے تو اس مال کو بلانیتِ ثواب فقراء پر صدقہ کیا جائے۔((کذا فی عبارۃ:۳))
  • جس شخص کے پاس حلال اور حرام دونوں طرح کا مال ہو، اور حلال اور حرام مال جدا جدا طور پر  معلوم ہیں تو حلال مال کی مقدار کے بقدر اس کے ساتھ خرید و فروخت کا معاملہ کرنا جائز ہے۔
  • اور اگر حرام او ر حلال مال ملے ہوئے ہیں تو اگر حلال مال غالب ہے تو اس کے ساتھ خریدوفروخت کا معاملہ کرنا جائز ہے۔((کذا فی عبارۃ:۴))
حوالہ جات
((۱))احكام المال الحرام (ص: 57)
التعامل مع البنوك الربوية. وإن أموال البنك الربوي مخلوطة بالحلال والحرام......... بيع الأشياء التى ليس لها علاقة مباشرة بالعمليات المحرمة، مثل السيارات أو المفروشات، فليس حراما، وذلك لأنها لايتمحض استخدامها فى عمل محظور. ......أما الثمن الذى يدفعه البنك إلى البائع، فهو من ماله المخلوط بالحلال والحرام، وقد مر أن التعامل به جائز بقدر مافيه من الحلال، وقدمنا أن الحلال فيه كثير.
((۲))احكام المال الحرام (ص: 58)
أن يؤجر المرأ نفسه للبنك بأن يقبل فيه وظيفة. فإن كانت الوظيفة تتضمن مباشرة العمليات الربوية أوالعمليات المحرمة الأخرى، فقبول هذه الوظيفة حرام، مثل التعاقد بالربوا أخذا أو عطاء
إن راتبه الذى يأخذ من البنك كله من الأكساب المحرمة. فإن لم يكن له مال غيره فلا يجوز أخذ شيئ منه هبة أو بيعا أوشراء أو إرثا. ......أما إذا كانت الوظيفة ليس لها علاقة مباشرة بالعمليات الربوية، مثل الحارس أوسائق السيارةولايحكم فى راتبه بالحرمةويجوز التعامل مع مثل هؤلاء الموظفين هبة أو بيعا أو شراء.
((۳))احكام المال الحرام (ص: 2)
 كل مال حرام لايملكه المرأ فى الشرع، سواء كان غصبا أو سرقة أو رشوة أو ربا فى القرض، أو مأخوذا ببيع باطل.ولايحل لأحد أن يشتريه منه إن كان عرضا، ولايبايعه فيه إن كان عينا (أى نقدا)، ولايأكله إن كان طعاما، ولايقبل شيئا من ذلك  هبة، ولايأخذه منه فى حق كان له عليه. ومن فعل شيئا من ذلك وهو عالم، كان سبيله سبيل الغاصب فى جميع أحواله.
((۴))احكام المال الحرام (ص: 17)
 أن يكون الحلال عند الغاصب أو كاسب الحرام متميزا من الحرام، فيجرى على كل واحد منهما أحكامه. وإن أعطى أحدا من الحلال حل للآخذ، وإن أعطى من الحرام حرم عليه، وإن علم الآخذ أن الحلال والحرام متميزان عنده، ولكن لم يعلم أن ما يأخذه من الحلال أو من الحرام، فالعبرة عند الحنفية للغلبة. فإن كان الغالب فى مال المعطى الحرام، لم يجز له، وإن كان الغالب فى ماله الحلال، وسع له ذلك.

  محمد عبدالرحمن ناصر 

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

25/10/1442

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عبدالرحمن ناصر بن شبیر احمد ناصر

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب