021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق یافتہ عورت کے لیے مہر کا حکم
71822نکاح کا بیانجہیز،مہر اور گھریلو سامان کا بیان

سوال

سوال:میری شادی سن ۲۰۱۹ء کو فرحان بن سہراب سے ہوئی،شادی کے چھ ماہ تک ازدواجی زندگی معمول کے مطابق چلتی رہی اس کے بعد میرے شوہر نے مجھے تنگ کرنا شروع کردیا۔ایک سال بعد میرابیٹا پیداہوا اوراس کے بعد میرے شوہر نے مجھے گھر سے نکال دیا،اب سات مہینوں سے میں اپنے میکے میں ہوں میراشوہرنہ خود آتا ہے اور نہ میرا اور بچے کا نان نفقہ دے رہا ہے۔برادری والوں نے بارہا صلح کی کوشش کی مگر میرا شوہر کسی صورت مجھے رکھنے کو تیارنہیں اور طلاق دینے پر بضد ہے۔نکاح کے وقت میرا مہر ایک لاکھ روپے مقرر ہوا تھا جو کہ انہوں نے ادا نہیں کیا اور نا ہی مقررشدہ نان نفقہ ادا کررہے ہیں جوکہ نکاح نامہ کے مطابق تین ہزار روپے ماہانہ ہے۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ طلاق دینےکی صورت میں مہر کس کا حق ہے اور کتنا ملے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ نکاح کے بعد خلوت صحیحہ پائی جائے تو بیوی کے لیے مہر مسمی(طے شدہ مہر)لازم ہوجاتا ہے اور وہ مکمل مہر کی حقدار ہوجاتی ہے ،لہذا مذکورہ صورت میں مہر بیوی کا ہی حق ہے اوراسے مکمل مہر ہی ملے گا۔

حوالہ جات
العناية شرح الهداية (3/ 321)
(ومن سمى مهرا عشرة فما زاد فعليه المسمى إن دخل بها أو مات عنها) ؛ لأنه بالدخول يتحقق تسليم المبدل وبه يتأكد البدل، وبالموت ينتهي النكاح نهايته، والشيء بانتهائه يتقرر ويتأكد فيتقرر بجميع مواجبه
العناية شرح الهداية (3/ 322)
اعلم أن المهر بعد وجوبه بالتسمية أو بنفس العقد يتقرر بأحد الأمرين بالدخول وما قام مقامه من الخلوة الصحيحة وبالموت، أما الدخول فلأنه يتحقق به تسليم المبدل وهو البضع (وبه) أي بتسليم المبدل (يتأكد تسليم البدل) وهو المهر كما في تسليم المبيع في باب البيع يتأكد به وجوب تسليم الثمن.

معاذ احمد بن جاوید کاظم 

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی 

۲۲ جمادی الاولی ۱۴۴۳ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

معاذ احمد بن جاوید کاظم

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب