021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق کی وجہ سے اسقاطِ حمل کرنا
73890جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے 2019میں اپنی بہن کی شادی کی، اب لڑکی کا شوہر لڑکی کے ساتھ بہت گالم گلوچ کرتا ہےاور مارپیٹ کرتا ہے، لڑکی کسی صورت اس کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں ہے اور نہ ہی لڑکا اس کو ساتھ رکھنے پر راضی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ لڑکی حاملہ ہےاور حمل کو ابھی تین مہینے مکمل نہیں ہوئے ہیں اور شوہر یہ کہتا ہے کہ مجھے اس ہونے والے بچے سے کوئی سروکار نہیں ۔ اب اگر طلاق ہوجاتی ہے تو یہ حمل لڑکی اور اس کے خاندان والوں کے لیےپریشانی کا باعث بن سکتا ہے ا س طور پر کہ لڑکی  کی عدت لمبی ہوجائے گی اور نکاح ثانی میں بھی مشکلات آئیں گی تو کیا اس صورت میں اسقاطِ حمل کروایا جاسکتا ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

حمل سے متعلق شرعی حکم یہ ہےکہ روح پڑجانےکے بعد جس کی حدیث میں مدت چار ماہ بتائی گئی ہے  اسقاط ِحمل قتلِ نفس کے حکم میں آتا ہے اور کسی صورت جائزنہیں۔البتہ چارماہ سے قبل انتہائی شدید عذر مثلاً عورت پہلے سے کمزور ہو اور بچے کی پیدائش سے کسی حساس بیماری میں مبتلاہونے کا یقین یا  غالب گمان ہو تو حمل کے چارماہ سے پہلے پہلے ساقط کرنے کی گنجائش ہے بغیر شدید عذر کے اسقاط کرنا مکرہ تحریمی ہے ۔

صورت ِ مسئولہ میں ابھی تک شوہر نے طلاق نہیں دی ہے،لہذا زوجین میں صلح کی کوشش کی جائے ، اس  کا بہتیرین طریقہ یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے خاندان سے چند سمجھ دار اور باحیثیت لوگوں کو بلالیا جائے اور لڑکی کو جو شکایات ہیں اس کے ازالے کی لڑکے سے یقین دہانی کروالی جائے اگر صلح ہوجاتی ہے  تواس سے بہتر کوئی صورت نہیں۔

بصورتِ دیگر یعنی صلح نہیں ہوتی یا پہلے کوشش کی جاچکی ہےلیکن فریقین علیحدگی پر بضد ہیں توایسی صورت میں بھی  اس بچے کی پرورش کے اخراجات شرعی اور قانونی طور پر والد کے ذمہ ہے انکار کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہےلیکن اگر والدکے بہر صورت ذمہ داری نہ اٹھانے کا یقین یا غالب گمان ہو،جس کی وجہ سے لڑکی ، اس کے گھر والوں اور خود بچے کے لیے مستقل مشکلات پیدا ہونے کایقین ہو تو ایسی صورت میں چار ماہ ہونےسے پہلے اسقاط کی گنجائش ہے ۔

حوالہ جات
الشامية: (176:3)
قال في النهر بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل نعم يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوما وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة كذا في الفتح وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج  ۔
 البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 215)
قال في النهر قال ابن وهبان ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصغير ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه و نقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح  لها ذلك أم لا اختلفوا فيه وكان الفقيه علي بن موسى يقول إنه يكره فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتخليق إلا نفخ الروح وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه.
الفتاوى الهندية (5/ 356)
وإن أسقطت بعد ما استبان خلقه وجبت الغرة كذا في فتاوى قاضي خان. العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه كالشعر والظفر ونحوهما لا يجوز وإن كان غير مستبين الخلق يجوز وأما في زماننا يجوز على كل حال وعليه الفتوى كذا

مصطفی جمال

دارالافتاءجامعۃالرشید کراچی

۳۰/۶/۱۴۴۲

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

مصطفیٰ جمال بن جمال الدین احمد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب