021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مضاربت میں نقصان ہونے کی صورت میں لوگوں کا پیسوں کا مطالبہ کرنے کا حکم
71556مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

بعض اوقات معاشرے میں ایسے مسائل پیش آجاتے ہیں کہ ایک شخص نیا نیا کاروبار شروع کرتا ہے اور پھر جلد ترقی کے حصول میں لوگوں سے اس بنیاد پر پیسےلیتا ہے کہ وہ انہیں اچھا منافع دے گا، اب بعض اوقات اس میں شرعی پہلوکو مدنظر رکھ کر اور بعض اوقات شرعی پہلوکو نظر انداز کر کے محض نفع کی لالچ دے کر پیسے جمع کر لئے جاتے ہیں ، اور لوگوں کو کچھ عرصے تک اس کا روبار میں چہل پہل اور آمد ورفت سب کچھ دکھایا جاتا ہے ، پھر یکدم کروڑوں روپے کا نقصان سامنے آجاتا ہے۔اب  یہ نقصان واقعتاً بھی ہوسکتا ہے اور فرضی بھی ،نقصان اگر واقعتاً ہو تو وہ فضول خرچی ،بے دریغ استعمال اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے یا کسی ناگہانی آفت یا دھوکے یا فراڈ کی زد میں آنے کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔

اس صورت ِ حال کے بعد وہ شخص جس نے لوگوں کا پیسہ جمع کرکے کاروبار شروع کیا تھا، اس سے سب لوگ اپنے پیسوں کا مطالبہ شروع کردیتے ہیں ،اور وہ شخص پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بے حد پریشان ہوتا ہےاور صرف وہ ہی پریشان نہیں ہوتا بلکہ اس کے سب گھر والوں کا سکون بھی غارت ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی تو اس صدمے کی وجہ سے گھر کے کسی فرد کی جان بھی چلی جاتی ہے۔

ایسی صورتِ حال میں ان لوگوں کا جنہوں نے اس کو کاروبار کی غرض سے رقم دی تھی کیا  ان کا پیسوں کا مطالبہ کرنا شرعاً درست ہے؟

تنقیح: فون پرجوتفصیلات موصول ہوئی ہیں،اس کے مطابق   ایک نوجوان نے  لوگوں کو سبز باغ دیکھا کر کہ اتنے دنوں میں انویسٹمنٹ بھی باہر آجائے گی اور نفع بھی اچھا خاصہ ہوجائے گا ،کسی سے پانچ لاکھ کسی سےتین لاکھ جمع کر لیے، ابتدا میں تو ایک معمولی کاروبار شروع  بھی کیا گیا لیکن بعد میں  لوگوں کے پیسوں کو کاروبار میں لگانے کے بجائے  ، ان پیسوں کو اپنے ذاتی استعمال اور اپنے آپ کو بڑا کاروباری دیکھانے میں تاکہ اس بنیاد پر مزید پیسے جمع کئے جاسکیں  خرچ کردیے، اور کچھ پیسے نفع کے نام پر بھی تقسیم کئے گئے، جب لوگوں نے پیسے دینا بند کردیا تو پھر اس معاملہ کی حقیقت لوگوں کے سامنے آئی ہے۔

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صرف بھاری نفع کی لالچ میں آکر سرمایہ کاری کرنا یا سرمایہ لینا دونوں جائز نہیں جب تک اس بات کا یقین نہ

ہوجائے کہ اس کاروبار سے بیان کردہ نفع ممکن ہے،اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کرتے وقت اس بات  کو بھی

یقینی بنایا جائے کہ جس شخص کو سرمایہ دیا جارہا ہے ، اس پر  ایمانداری و تجارتی قابلیت سمیت  ہر قسم کا اعتماد کیا جاسکتا

ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مضارب امین ہوتا ہے جب تک اس کی خیانت یا غفلت واضح دلیل سے ثابت نہ ہو تووہ

کسی بھی نقصان کا ضامن نہیں ہوتا۔

صورت ِ مسئولہ میں مضارب کی طرف سے خیانت واضح ہوگئی ہے،جیسا کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے،لہذا  

مضارب ضامن ہے اورلوگوں کا اپنے پیسوں کا مطالبہ کرنا بھی جائز ہے۔ 

حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 53)
(والمضارب أمين ...يعني بدفع المال إليه على وجه المضاربة يكون أمينا؛ لأنه قبضه بإذن مالكه لا
على وجه البدل والوثيقة...وإنما صار غاصبا بالخلاف لوجود التعدي على مال الغير كالغصب
وهذا؛ لأن صاحبه لم يرض أن يكون في يده إلا على الوجه الذي أمره به فإذا خالف فقد تعدى
فصار غاصبا فيضمن...فله أن يفعل ما هو معتاد بين التجار.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 67)
قال - رحمه الله - (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لأنه أمين فلا يكون ضمينا
للتنافي بينهما في شيء واحد.
الفتاوى الهندية (4/ 288)
(حكمها) فإنه أولا أمين وعند الشروع في العمل وكيل وإذا ربح فهو شريك وإذا فسدت فهو
أجير وإذا خالف فهو غاصب.

مصطفی جمال

دارالافتاءجامعۃالرشید کراچی

30/04/1442

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

مصطفیٰ جمال بن جمال الدین احمد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب