75168 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
ایک شخص نے لڑائی جھگڑے کے دوران اپنی بیوی سے کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میری طرف سے فارغ ہو، جہاں چاہے جاؤ۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟نیز رجوع کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ایک شخص نے لڑائی جھگڑے کے دوران اپنی بیوی سے کہا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میری طرف سے فارغ ہو، جہاں چاہے جاؤ۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟نیز رجوع کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں شخصِ مذکور کے اپنی بیوی سے سوال میں ذکر کیے گئے الفاظ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،" کہنے سے اس كی بيوی پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے، اب ان دونوں کا اکٹھے رہنا ہرگز جائز نہیں۔ نیز اب رجوع نہیں ہو سکتا اور موجودہ صورتِ حال میں دوبارہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں، البتہ اگر عورت عدت گزارنے کے بعد کسی اور شخص سے باقاعدہ نکاح کرے اور وہ خاوند عورت سے ہمبستری بھی کرے، پھر وہ اپنی رضامندی سے عورت کو طلاق دیدے یا وہ وفات پا جائے تو اُس خاوند کی عدت گزارنے کے بعد فریقین باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ ورنہ نہیں۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1 / 473) دار الفكر، بیروت:
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز۔
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی
29/جمادی الاولی 1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |