021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وراثت اور جائیداد تقسیم کرنے کا طریقہ
75153میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

دو سگے بھائی تھے، جن کی کوئی بہن نہیں تھی، مرحوم (1) کے ورثاء میں بیوہ، دوبیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، جبکہ مرحوم (2) کے ورثاء میں بیوہ، پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

صورتِ حال یہ ہے کہ 2000ءایک جائیداد خریدی گئی، جس میں دونوں مرحومین حصہ دار تھے، مرحوم (1) تین حصوں میں سے ایک حصہ کے اور مرحوم (2) دو حصوں کے مالک تھے، موجودہ جائیداد کو اپنی پچھلی جائیداد بیچ کر خریدا گیا تھا، جس میں مرحوم (1) بھی حصہ دار تھے اور اس جائیداد میں دونوں مرحومین نصف نصف کے حصہ دار تھے، یہ بھی واضح ہو کہ پچھلی جائیداد مرحوم (2) نے اپنی ذاتی آمدن سے خریدی تھی، ليكن مرحوم (2) نے اپنے والد کی خواہش پر اپنے بھائی کو نصف کا حصہ دار بنایا تھا، اسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرحوم (2) نے جب یہ جائیداد خریدی جو کہ پچھلی جائیداد سے بڑی تھی تو گزشتہ تناسب سے اس میں بھی تیسرے حصے کا حصہ دار بنا دیا،  مرحوم (1) اس وقت کمانے لگ گئے تھے، اس وقت گھریلو اخراجات مشترکہ چل رہے تھے، جس میں زیادہ حصہ مرحوم (2) کا ہوتا تھا، مرحوم (2) کی بڑی دو اولادیں بھی اس میں حصہ ڈالتی تھیں، اسی دوران مرحوم (1) کا انتقال ہو گیا اور تمام ذمہ داری مرحوم (2) اور ان کی اولاد پر آگئی، جو انہوں نے بڑے احسن طریقے سے نبھائی، چنانچہ مرحوم (1) کی بیوی اور بچوں کی تعلیم اور شادی وغیرہ کے سب اخراجات برداشت کیے، اسی دوران مرحوم (2) کے بڑے بیٹے کی وفات ہو جاتی ہے، مزید یہ کہ اسی دوران مذکورہ جائیداد پر موبائل ٹاورز نصب ہو جاتے ہیں اور ان کا سالانہ کرایہ وصول ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس کرایہ میں سے مرحوم (1) کی اولاد کو حصہ نہیں دیا جاتا، بلکہ کچھ رقم مرحوم (2) کی مرضی سے دی جاتی ہے، اس کی وجہ مرحوم (2) کا کہنا تھا کہ میں نے ان کو صرف اس جائیداد میں حصہ دار بنایا تھا اور کسی میں نہیں بنایا تھا۔

اسی دوران دوسری منزل کی تعمیر شروع ہوتی ہے، جو کہ کافی عرصہ تک جاری رہتی ہے، جس کا پورا خرچ مرحوم (2) اور ان کی اولاد نے برداشت کیا، 2012ءمیں مرحوم (1) کے بچے بھی کمانا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ بھی گھریلو اخراجات میں حصہ ڈالنا شروع ہوجاتے ہیں، اسی دوران دوسری منزل تعمیر ہوتی ہے، تعمیر مکمل ہونے پر مرحوم (1) کی فیملی کو اس منزل پر مختلف کمرے رہائش کے لیے بشمول باورچی خانہ دے دیے جاتے ہیں اور وہ اپنا خرچ خود برداشت کرنے لگ جاتے ہیں، یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، سوالات درج ذیل ہیں:

  1. اس جائیداد کی تقسیم کس طرح  ہو گی؟ اور کس فریق کو کتنا حصہ ملے گا؟
  2. کیا موبائل ٹاورز کا کرایہ دونوں مرحومین کے ورثاء میں جائیداد کی  ملکیت کے تناسب سے تقسیم ہو گا؟

واضح رہے کہ بغیر فروختگی کے اس جائیداد کو اسی طرح واروثوں میں تقسیم کیا جائے گا، کیونکہ مرحوم (2) کے سب ورثاء بیرون ملک رہائش پذیر ہیں، اس لیے بیچنا مشکل ہے۔

دو سگے بھائی تھے، جن کی کوئی بہن نہیں تھی، مرحوم (1) کے ورثاء میں بیوہ، دوبیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، جبکہ مرحوم (2) کے ورثاء میں بیوہ، پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔

صورتِ حال یہ ہے کہ 2000ءایک جائیداد خریدی گئی، جس میں دونوں مرحومین حصہ دار تھے، مرحوم (1) تین حصوں میں سے ایک حصہ کے اور مرحوم (2) دو حصوں کے مالک تھے، موجودہ جائیداد کو اپنی پچھلی جائیداد بیچ کر خریدا گیا تھا، جس میں مرحوم (1) بھی حصہ دار تھے اور اس جائیداد میں دونوں مرحومین نصف نصف کے حصہ دار تھے، یہ بھی واضح ہو کہ پچھلی جائیداد مرحوم (2) نے اپنی ذاتی آمدن سے خریدی تھی، ليكن مرحوم (2) نے اپنے والد کی خواہش پر اپنے بھائی کو نصف کا حصہ دار بنایا تھا، اسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے مرحوم (2) نے جب یہ جائیداد خریدی جو کہ پچھلی جائیداد سے بڑی تھی تو گزشتہ تناسب سے اس میں بھی تیسرے حصے کا حصہ دار بنا دیا،  مرحوم (1) اس وقت کمانے لگ گئے تھے، اس وقت گھریلو اخراجات مشترکہ چل رہے تھے، جس میں زیادہ حصہ مرحوم (2) کا ہوتا تھا، مرحوم (2) کی بڑی دو اولادیں بھی اس میں حصہ ڈالتی تھیں، اسی دوران مرحوم (1) کا انتقال ہو گیا اور تمام ذمہ داری مرحوم (2) اور ان کی اولاد پر آگئی، جو انہوں نے بڑے احسن طریقے سے نبھائی، چنانچہ مرحوم (1) کی بیوی اور بچوں کی تعلیم اور شادی وغیرہ کے سب اخراجات برداشت کیے، اسی دوران مرحوم (2) کے بڑے بیٹے کی وفات ہو جاتی ہے، مزید یہ کہ اسی دوران مذکورہ جائیداد پر موبائل ٹاورز نصب ہو جاتے ہیں اور ان کا سالانہ کرایہ وصول ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس کرایہ میں سے مرحوم (1) کی اولاد کو حصہ نہیں دیا جاتا، بلکہ کچھ رقم مرحوم (2) کی مرضی سے دی جاتی ہے، اس کی وجہ مرحوم (2) کا کہنا تھا کہ میں نے ان کو صرف اس جائیداد میں حصہ دار بنایا تھا اور کسی میں نہیں بنایا تھا۔

اسی دوران دوسری منزل کی تعمیر شروع ہوتی ہے، جو کہ کافی عرصہ تک جاری رہتی ہے، جس کا پورا خرچ مرحوم (2) اور ان کی اولاد نے برداشت کیا، 2012ءمیں مرحوم (1) کے بچے بھی کمانا شروع ہو جاتے ہیں اور وہ بھی گھریلو اخراجات میں حصہ ڈالنا شروع ہوجاتے ہیں، اسی دوران دوسری منزل تعمیر ہوتی ہے، تعمیر مکمل ہونے پر مرحوم (1) کی فیملی کو اس منزل پر مختلف کمرے رہائش کے لیے بشمول باورچی خانہ دے دیے جاتے ہیں اور وہ اپنا خرچ خود برداشت کرنے لگ جاتے ہیں، یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، سوالات درج ذیل ہیں:

  1. اس جائیداد کی تقسیم کس طرح  ہو گی؟ اور کس فریق کو کتنا حصہ ملے گا؟
  2. کیا موبائل ٹاورز کا کرایہ دونوں مرحومین کے ورثاء میں جائیداد کی  ملکیت کے تناسب سے تقسیم ہو گا؟

واضح رہے کہ بغیر فروختگی کے اس جائیداد کو اسی طرح واروثوں میں تقسیم کیا جائے گا، کیونکہ مرحوم (2) کے سب ورثاء بیرون ملک رہائش پذیر ہیں، اس لیے بیچنا مشکل ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. مذکورہ جائیداد میں مرحوم (1) اور مرحوم (2) دونوں کے ورثاء اپنے اپنے والد کے شرعی حصہ کے تناسب سے حق دار ہوں گے، کیونکہ مرحوم(2)کے مرحوم (1)کو اس جائیداد میں شریک کرنے کی وجہ سے ان کے درمیان شرکتِ ملک واقع ہو گئی تھی اور شرکتِ ملک کا حکم یہ ہے کہ ہر شریک اس میں اپنی مرضی سے تصرف کرنے اور اس سے حاصل شدہ آمدن میں مکمل حق رکھتا ہے، لہذا اب ان دونوں کے ورثاء بھی اسی تناسب سے اس جائیداد کے مالک ہوں گے، یعنی ایک حصہ مرحوم (1)کے ورثاء کا اور دو حصے مرحوم(2) کے ورثاء کے ہوں گے۔   البتہ اس جائیداد کے اوپر جو تعمیر کی گئی ہے اس میں اگر مرحوم (2) نے مرحوم (1) کی اولاد کو باقاعدہ کسی حصہ کا ملک نہیں بنایا تھا تو اس صورت میں تعمیر شرعی اعتبار سے مرحوم (2) کی ہی ملکیت شمار ہو گی اور اب ان کی وفات کے بعد ان کے ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گی۔
  2. سوال نمبر1 کے جواب میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اس جائیدادیعنی زمین  سے حاصل ہونے والی تمام آمدن بھی دونوں شرکاء کے درمیان اپنے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گی، لہذا موبائل ٹاورز سے حاصل شدہ کرایہ کے ایک تہائی حصہ کے حق دار مرحوم (1) کے ورثاء ہوں گے اور بقیہ دوتہائی حصہ کے مالک مرحوم (2)کے ورثاء ہوں گے۔
حوالہ جات
كنز الدقائق (ص: 536) دار البشائر الإسلامية، دار السراج:
كتاب الهبة: هي تمليك العين بلا عوض وتصح بإيجاب كـ: وهبت ونحلت وأطعمتك هذا الطعام وجعلته لك وأعمرتك هذا الشيء وحملتك على هذه الدابةناويا به الهبة وكسوتك
هذا الثوب وداري لك هبة تسكنها لا هبة سكنى أو سكنى هبة وقبول وقبض في المجلس بلا إذنه وبعده به في محوز مقسوم ومشاع لا يقسم لا فيما يقسم فإن قسّمه وسلّمه صح۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 300) دار الفكر-بيروت:
شركة ملك، وهي أن يملك متعدد) اثنان فأكثر (عينا) أو حفظا كثوب هبه الريح في دارهما فإنهما شريكان في الحفظ قهستاني (أو دينا) على ما هو الحق؛ فلو دفع المديون لأحدهما فللآخر الرجوع بنصف -ما أخذ فتح وسيجيء متنا في الصلح وأن من حيل اختصاصه بما أخذه أن يهبه المديون قدر حصته ويهبه رب الدين حصته وهبانية (بإرث أو بيع أو غيرهما) بأي سبب كان جبريا أو اختياريا ولو متعاقبا؛ كما لو اشترى شيئا ثم أشرك فيه آخر منية۔
(وكل) من شركاء الملك (أجنبي) في الامتناع عن تصرف مضر (في مال صاحبه) لعدم تضمنها الوكالة (فصح له بيع حصته ولو من غير شريكه بلا إذن إلا في صورة الخلط) لماليهما بفعلهما كحنطة بشعير وكبناء وشجر وزرع مشترك قهستاني۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (4/ 488) دار إحياء التراث العربي:
ومن عمر دار زوجته بماله أي بمال الزوج بإذنها أي بإذن الزوجة فالعمارة تكون لها أي للزوجة لأن الملك لها وقد صح أمرها بذلك والنفقة التي صرفها الزوج على العمارة دين له أي للزوج عليها أي على الزوجة لأنه غير متطوع فيرجع عليها لصحة الأمر فصار كالمأمور بقضاء الدين ۔
وإن عمرها أي الدار لها أي للزوجة بلا إذنها أي الزوجة فالعمارة لها أي للزوجة وهو أي الزوج في العمارة متبرع في الإنفاق فلا يكون له الرجوع عليها به وإن عمر لنفسه بلا إذنها أي الزوجة فالعمارة له أي للزوج لأن الآلة التي بنى بها ملكه فلا يخرج عن ملكه بالبناء من غير رضاه فيبقى على ملكه فيكون غاصبا للعرصة وشاغلا ملك غيره بملكه فيؤمر بالتفريغ إن طلبت زوجته ذلك كما في التبيين لكن بقي صورة وهي أن يعمر لنفسه بإذنها ففي الفرائد ينبغي أن تكون العمارة في هذه الصورة له والعرصة لها ولا يؤمر بالتفريغ إن طلبته انتهى۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

29/جمادی الاولی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب