021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
باغ کو اجارہ پر دینے کی ایک صورت کا حکم
75211کھیتی باڑی اور بٹائی کے احکاممتفرّق مسائل

سوال

میرا ایک باغ ہے میں خود اس  کی دیکھ بھال  نہیں کر سکتا ، میں نے دوسرے شخص کو اجارہ پر دیا ہے جس کی صورت کچھ اس طرح ہے کہ وہ شخص سالانہ مجھے پچاس لاکھ نقد رقم  دے گا اور ۱۰۰ کریٹ سیب دے گا اور شاخ تراشی کی لکڑی وہ بھی استعمال کرتا ہے اور میں بھی۔

باغ کے ساتھ کچھ خالی زمین بھی موجود ہے  اور یہ اجارہ چار سال کے لئے ہم نے کیا ہے، اور یہ بات بھی  واضح رہے کہ اس قسم کے اجارہ   لوگ  باغ کو مقصود  سمجھ کر کرتے ہیں خالی زمین کو نہیں، جبکہ اس طرح اجارہ علاقہ میں لوگوں نے علماء سے پوچھ کر بہت سارے کئے ہوئے ہیں اور وجہ یہی بتائے جارہی ہے کہ باغ کے ساتھ خالی زمین موجود ہے لیکن خالی زمین کی مقدار متعین نہیں ہے۔ کیا اس قسم کا اجارہ شریعت کی رو سے جائز ہے ؟ اگر نہیں تو کوئی جائز صورت نکل سکتی ہو تو وہ تحریر فرما کر مشکور  فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ  میں کئے جانے والے عقد  کی دو صورتیں ممکن ہیں اور وہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں ۔ اگر یہ معاملہ براہ راست باغ کے درختوں کا اجارہ ہے تو یہ اس لئے  ناجائز ہے  کہ باغات میں موجود درختوں کو اجارہ پر دینا تاکہ مستاجر پھل وغیرہ حاصل کر سکے ،یہ جائز نہیں، اس لیے کہ اجارہ شرعاً منافع پر ہوتا ہے، کسی عین چیز کو ہلاک کرنے پر اجارے کا عقد کرنا شرعاً درست نہیں ہوتا۔

اور اگر  اجارہ  خالی زمین کا ہے تو  یہ  اجارہ جائز تو ہے لیکن اس میں بھی مستاجر کے لئے درختوں سے حاصل ہونے والے پھلوں کو استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا (جبکہ عقد میں یہی مقصود ہے ) اور اس  کی وجہ بھی  وہی ہے جو اوپر گزری ہے۔  چنانچہ اس طرح  عقد کر نے سے بچنا ضروری ہے۔

اس معاملہ کی جائز صورت  ایک تو یہ ہو سکتی ہے  کہ آپ ماہانہ  اجرت پر کچھ ملازمین رکھ لیں جو آپ کی جگہ  باغ کی دیکھ بھال کریں۔ دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ آپ  اپنے باغ کو جس شخص کو اجارہ پر دینا چاہتے ہیں ، اسی شخص سے   مساقات  کا معاملہ  کرلیں اور اپنے لئے  پھلوں کا بہت معمولی سا  حصّہ مثلاً    ۱ فیصد  اور دوسرے شخص کے لئے ۹۹ فیصد متعین  کرلیں ۔ اب ایک علیحدہ عقد کے ذریعے اس زمین کو( جس پر باغ ہے)  اسی شخص کو  سالانہ پچاس لاکھ اور ۱۰۰ کریٹ سیب   کی اجرت پرچار سال کی مدت کے لئے  اجارہ پر دے دیں جس کے ساتھ مساقات کا معاملہ کیا ہے۔  اس بات کا خیال رکھیں کہ پہلے مساقات کا عقد ہو اور پھر  زمین کے اجارہ کا ۔

چونکہ باغ کی دیکھ بھال  عامل (مساقی) کے ذمہ ہوتی ہے تو آپ کو دیکھ بھال بھی  نہیں کرنی پڑے گی اور حاصل شدہ پھل بھی دونوں فریقوں کے درمیان طے شدہ فیصدی حصے کے مطابق تقسیم ہو  جائیں گے  ۔ پھر اگر آپ چاہیں تو اپنے ایک فیصد پھلوں کو بھی دوسرے فریق کو ہبہ کردیں یا پھر زمین کی اجرت میں سے ۱۰۰ کریٹ ہٹا دیں اور یہی  ایک  فیصد پھل خود  رکھ لیں۔

حوالہ جات
المحيط البرهاني في الفقه النعماني :(7/ 477)
وفي القدوري : ‌إذا ‌استأجر ‌أرضا سنة فيها رطبة، فالإجارة فاسدة، فإن قلع رب الأرض وسلمها أرضا بيضاء فهو جائز، وقاسه على ما إذا باع الجذع في السقف ثم نزع الجذع وسلمه إلى المشتري، وإن اختصما قبل ذلك فأبطل الحاكم الإجارة ثم قلع الرطبة، فالمستأجر بالخيار، إن شاء قبضها على تلك الإجارة وطرح عنه أجر ما لم يقبض، وإن شاء ترك، هذا جملة ما ذكره في «القدوري» ، ثم الزرع إذا لم يدرك، وأراد جواز الإجارة في الأرض.
فالحيلة في ذلك: أن يدفع الزرع إليه معاملة، إن كان الزرع لرب الأرض على أن يعمل المدفوع إليه في ذلك بنفسه، وأجرائه وأعوانه على أن ما يرزق الله تعالى من الغلة، فهو بينهما على مئة سهم، سهم من ذلك للدافع، وتسعة وتسعون سهما للمدفوع إليه، ثم يأذن له الدافع أن يصرف السهم الذي له إلى مؤنة هذه الضيعة أو شيء أراد، ثم يؤاجر الأرض منه، وإن كان الزرع لغير رب الأرض ينبغي أن يؤاجر الأرض منه بعد مضي السنة التي فيها الزرع فيجوز، وتصير الإجارة مضافة إلى وقت في المستقبل.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق (7/ 305):
واعلم أن الأرض لا ينحصر استئجارها للزراعة للبناء والغرس كما يوهمه المتون فقد صرح في الهداية بأن الأرض تستأجر للزراعة وغيرها وقال في غاية البيان أراد بغير الزراعة البناء والغرس وطبخ الآجر والخزف ونحو ذلك من سائر الانتفاعات بالأرض اهـ.
فإذا عرفت ذلك ظهر لك صحة الإجارات الواقعة في زماننا من أنه تستأجر الأرض مقيلا ومراحا قاصدين بذلك إلزام الأجرة بالتمكن منها مطلقا سواء شملها الماء وأمكن زراعتها أو لا ولا شك في صحته لأنه لم يستأجرها للزراعة بخصوصها حتى يكون عدم ريها فسخا لها في الولوالجية استأجر أرضا ليلبن فيها فالإجارة فاسدة ثم هي على وجهين إن كان للتراب قيمة ضمن قيمته ويكون اللبن له وإن لم يكن له قيمة فلا شيء عليه واللبن له وضمن نقصان الأرض إن نقصت.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين                                                                  :(8/6)
(قوله فيستأجر أرضه الخالية) أي بياضها بدون الأشجار، وإنما لا يصح استئجار الأشجار أيضا لما مر أنها تمليك منفعة، فلو وقعت على استهلاك العين قصدا فهي باطلة، قال الرملي: وسيأتي في إجارة الظئر أن عقد الإجارة على استهلاك الأعيان مقصود كمن استأجر بقرة ليشرب لبنها لا يصح، وكذا لو استأجر بستانا ليأكل ثمره.
قال: وبه علم حكم إجارات الأراضي والقرى التي في يد المزارعين لا كل خراج المقاسمة منها، ولا شك في بطلانها والحال هذه، وقد أفتيت بذلك مرارا اهـ (قوله بمبلغ كثير) أي بمقدار ما يساوي أجرة الأرض وثمن الثمار (قوله ويساقي على أشجارها) يعني قبل عقد الإجارة وإلا كانت إجارة الأرض مشغولة فلا تصح كما سيأتي.
وفي فتاوى الحانوتي التنصيص في الإجارة على بياض الأرض لا يفيد الصحة حيث تقدم عقد الإجارة على عقد المساقاة أما إذا تقدم عقد المساقاة بشروطه كانت الإجارة صحيحة.
و فيه أيضا  (6/ 285):
(قوله هي المعاملة إلخ) وآثر المساقاة لأنها أوفق بحسب الاشتقاق قهستاني: أي لما فيها من السقي غالبا، وقدمنا الكلام على المفاعلة (قوله فهي لغة وشرعا معاقدة) أفاد اتحاد المعنى فيهما تبعا لما في النهاية والعناية أخذا مما في الصحاح: أنها استعمال رجل في نخيل أو كروم أو غيرها لإصلاحها على سهم معلوم من غلتها، وفسرها الزيلعي وغيره لغة بأنها مفاعلة من السقي، وشرعا بالمعاقدة.

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

 یکم، جمادی الثاني۱۴۴۳ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب