021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
امپورٹر اورآئل مل ریفائزیز کے معاملات کی مختلف صورتیں
75205خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

٭  مال بالکل حاضر اور موجود ہوتا ہے اور ڈیلوری سے کوئی مانع موجود نہیں ہوتا ، اس کو ریڈی ڈلیوری یاحاضر سودا کہتے ہیں ۔

٭  کبھی امپورٹر کا مال اس کے آئل ٹرمینل پر موجود ہوتا ہے مگر مال کلئیر نہیں ہوا ہوتا۔ کلئیر ہونے میں چند گھنٹوں کی دیر ہوتی ہے یاکبھی دو چار دن کی بھی دیر ہوتی ہے ( مال کلئیر نہ ہونے کی وجہ سے کبھی یہ ہوتا ہے کہ کسٹم ڈیوٹی ادا کرنا  باقی ہوتا ہے یاکوئی اور کاغذ ی کاروائی رہتی ہے ۔ )

٭ کبھی مال جہاز میں ہوتا اور جہاز راستے میں ہوتا ہے، مال کے  پہنچنے  میں ہفتے  دو ہفتے ، مہینے کا  وقت بھی لگ سکتا ہے، بائع یہ کہہ کر  بیچ دیتا   ہے کہ ہفتہ ، دو ہفتہ  بعد کی ڈیلیور کی بیجتا ہوں یا گلے مہینے کا بائیر آپشن (Buyer Option)  بیچتا ہوں یا اسی مہینے کا سیلر  آپشن ( Seller Option ) بیچتا ہوں ۔

 Buyer Option کا مطلب یہ ہے کہ بائع کہتا ہے کہ مال اگلے مہینے میں جب خرید ار مطالبہ کرے گا میں دو دن کے اندر ڈیلیوری دینے کا پابند ہوں سودا بھی کر لیتے ہیں،  مال کی ڈیلیوری آئندہ  ذ کر کردہ  اوقات میں ہوتی ہے ۔

 Seller Option  کا مطلب یہ کہ بائع کہتا ہے کہ مال کی ڈیلوری اس مہینے میں یا اگلے مہینے میں اپنی مرضی سے دونگا سودا  ابھی کر لیتے ہیں ریٹ اور مقدار بھی طے کر لیتے ہیں مثلا امپوٹر تاجر سے کہتا ہے Full May Buyer Option یا Full May Seller Option (100 ٹن)  مال 9000 روپے فی من کے حساب سے آپ کوبیچتا ہوں،  تاجر اس کو منظور کر لیتا ہے ۔

پھر تاجر کبھی یہ سودا اپنا نفع رکھ کر مثلا 9050  روپےفی من دو سرے تاجر کو دے دیتا ہے،  دوسرا تاجر  تیسرے تاجر کو دے دیتا ہے، نفع یا نقصان دونوں صورتیں ممکن ہوتی ہیں، اسی طرح یہ سودا پورا  مہینہ بازار میں گردش کرتارہتا ہے بالآخر جب مال امپورٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے اور کلئیر ہو جاتا ہے (جس میں کبھی تو مقرر وقت پر  مال آجاتا ہے اور کبھی مزید دیر بھی لگ جاتی ہے ایسی صورت میں مال مقرر وقت پر نہ ملنے سے در میان کے سب تاجروں کو بازار کے اترنے چڑھنے کی وجہ سے نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔) تو امپورٹر اپنے خریدار کو مال حوالے کرنے لگتا ہے، اب اس تاجر نے تو آگے بیچ دیا ہوتا ہے، وہ تاجر نئے خریدار سے مال اٹھانے کا مطالبہ کرتا ہے، اس طرح آخر میں گھی مل یا آئل ڈپو والا اس کا سودا کر لیتے ہیں اور مال وہی اٹھاتے ہیں ،در میان کے سب تاجر مال کا حوالہ ایک دوسرے کو کر دیتے ہیں اور اپنے حصے کے نفع یا نقصان کے ساتھ اپنے  مال کی رقم ادا کر دیتے ہیں ۔

سوالات:

۱۔۔۔ امپورٹرکا ان تمام صورتوں میں مال بیچنا اور پہلے تاجر کا اس سے خریدنا پھر آگے بیچ  دینا کیسا ہے ؟

۲۔۔۔کیا اگر یہ سب معاملے وعدہ کے طور پر ہوں تو کیا حکم ہے ؟ نیز اگر یہ سب معا ملے وعدہ ٴبیع کے طور پر ہوں تو سب تاجروں کے اس  مال پر قبضہ و ضمان میں آنے کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟

۳۔۔۔کیا  آخری خریدار جو مال حسی طور قبضہ  کرتا ہے اس کا  خریدنا  اور پھر آگے بیچنا جائز ہوگا  ؟جبکہ یہ  مال بیع قبل القبض  کے تسلسل سے آیاہوتا ہے ۔

۴۔۔۔اگر در میان میں صرف ایک ہی  مِڈل مین ہو تو کیا اس کے قبضے  میں لینے کی صورتیں ممکن ہیں؟ نیز زیادہ تاجروں کی مداخلت کی صورت میں جواز کی کوئی صورت ہے یا نہیں ؟

امپورٹر کے مال  کی نو عیت :

۵۔۔۔امپورٹرکبھی تو تیا  ر آئل ہی منگوا لیتے ہیں اس کے لئے کسی صنعتی عمل کی ضرورت نہیں ہوتی اور کبھی امپورٹر خام تیل منگواتے ہیں  اور پھر اپنی آئل  ریفائیزیز  میں  ریفائن کر کے دیتے  ہیں۔

کبھی آئل سیڈ ( Oil Seed ) منگواتے  ہیں ، اس میں پہلے بیجوں  سے تیل نکالتے ہیں اور پھر اسےریفائن  کرتے ہیں اور پھر بیچتے  ہیں یعنی  ان کا  صنعتی  عمل شامل ہوتا ہے ۔ اس صورت میں کہ جب ان کا صنعتی  عمل شامل ہوتا ہے۔ سلم یا استصناع کے قواعد کے مطابق ان سے غیر حاضر مال خرید نا کیسا ہے ؟

وضاحت: سائل نے بتایا کہ ریفائن کے عمل کے دوران آئل میں مختلف قسم کے کیمیکلزڈالے جاتے ہیں، جن کا مقصدآئل کی صفائی، رنگ کا صاف کرنا اور اس کی قدرتی مہک کو دور کرنا ہوتا ہے۔

 ۶۔۔۔آئل ریفائنری  والے بھی کبھی  تو تیار کوکنگ آئل بیچتے ہیں اور کبھی کچھ مقدار تیار اور کچھ خام تیل کی شکل میں یا بیچ  کی شکل میں ان کے پاس ہوتی ہے اور کبھی کچھ مقدار یا ساری مقدار بیجوں  کی شکل میں امپورٹ کے مراحل میں ہوتی ہے، مل والوں کے پاس موجود نہیں ہوتا تو اب تاجر کا ان سے خرید نا جائز ہو گا ؟ نیز اس صورت میں اگر وعدہ ٔ  بیع کر کے معاملات طے کر لیں اور آگے تمام تاجر وعدہ  کر کے  ہی معاملات کرتے رہیں تو کیا حکم ہے ؟

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا ہم جب آئل خریدتے ہیں تو آئل گاڑی میں بھرنے کے بعد مشین سے گزارتے ہیں، جس سے آئل کی صحیح مقدار معلوم ہو جاتی ہے، البتہ جس گاڑی میں آئل ڈالا جاتا ہے اس کی مقدار بھی معلوم ہوتی ہے، اور جب ہم خریدتے ہیں تو گاڑیوں کی تعداد کے اعتبار سے خریدتے ہیں، جیسے دس، بیس یا تیس گاڑیاں وغیرہ۔جس سے ایک حد تک آئل کی مقدار کا اندازہ ہو جاتا ہے، البتہ یقینی مقدار معلوم کرنے کے لیے مشین کے اوپر سے گاڑی گزری جاتی ہے، جس سے یقینی مقدار معلوم ہو جاتی ہے۔

بعض امپورٹرز سے معلومات لینے پر یہ بھی بتایا گیا کہ جب آئل بھیجا جاتا ہے تو پہلے خریدار کو باقاعدہ اطلاع دی جاتی ہے اور وہ اس کمپنی کے ذریعہ مال بھیجنے پر راضی ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ خریدار کو بالکل اطلاع دیے بغیر مال لوڈ کر دیا جائے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوالات کے جوابات سے پہلے بطورِ تمہید جاننا چاہیے کہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے خریدوفروخت کے کچھ اصول بیان کیے ہیں، جن میں سے درج ذیل تين اصول  مذكوره سوالات سے متعلق ہیں:

  • جو چیز آدمی کی ملکیت میں نہ ہو وہ چیزکسی شخص کو بیچنا جائز نہیں، البتہ خریدوفروخت کی دو قسمیں یعنی سلم (جس میں قیمت پہلے اور بیچی گئی چیز بعد میں وقتِ مقررہ پر دی جاتی ہے)  اور استصناع (آرڈر پر مال تیا کروانا) میں بغیر ملکیت کے بھی چیز آگے بیچنا جائز ہے۔
  • منقولی چیز (جس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہو) خریدنے کے بعدقبضہ کیے بغیر اس کو آگےفروخت کرنا  جائز نہیں۔
  • خریدفروخت کے معاملے میں ثمن یعنی قیمت کی تاجیل (قیمت بعد میں وقتِ مقررہ پر ادا کرنا) درست ہے، لیکن بیچی گئی چیز کی تاجیل سلم (خریدوفروخت کی ایک قسم جس میں قیمت پہلے اور بیچی گئی چیز بعد میں وقتِ مقررہ پر دی جاتی ہے) اور استصناع (آرڈر پر مال تیا کروانا) کے علاوہ کسی صورت میں جائز نہیں۔

ان اصولوں کے بعد سوالات کے جوابات بالترتیب ملاحظہ فرمائیں:

  1. صورتِ مسئولہ میں مال بندرگاہ پر پہنچنےکے بعد امپورٹر کا مال بیچنا بلاشبہ  جائز ہے، اسی طرح اگر مال پورٹ پر نہ پہنچا ہو، بلکہ ابھی راستے میں ہو تو ایسی صورت میں بھی مال آگے بیچنا درست ہے، کیونکہ  تجارت کے عالمی قوانین کے مطابق عرف میں جہاز راں کمپنی خریدار کی وکیل شمار ہوتی ہے،  بشرطیکہ فروخت کنندہ (Saller)کمپنی کا انتخاب کرنے سے پہلے خریدار (Buyer)سے مال لانے والی کمپنی کے بارے میں رائے طلب کر لے یا کم از کم  انتخاب کرنے کے بعد مال لوڈ کرنے سے پہلے خریدار کو جہاز راں کمپنی کا علم ہو جائے اور اس کی طرف سے مذکورہ کمپنی کے ذریعہ مال بھیجنے پر اتفاق کا اظہار ہو جائے، تاکہ شرعی اعتبار سے وکالت کا معاملہ منعقد ہو جائے،(اس میں اصولی طور پر راستے کا خرچ خریدار کو برداشت کرنا چاہیے، کیونکہ جہاز راں کمپنی خریدار کی وکیل ہوتی ہے، لیکن اگر فروخت کنندہ اپنی مرضی سے راستے کا خرچ برداشت کرتا ہے تو بھی وکالت کے معاملے پر اثر نہیں پڑے گا، بشرطیکہ مال لوڈ کرنے سے خریدار کی طرف سے اتفاقِ رائے ہو چکا ہو) اس کے بعد خریدا گیا مال جہاز راں کمپنی کے سپرد کرنے سے خریدار  یعنی امپورٹرکا قبضہ اور مال کا ضمان اس کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور خریدار کا قبضہ ہوجانے کے بعد اس چیز کو آگے بیچنا جائز ہوتا ہے۔ اور مال فروخت ہوجانے کے بعد ضرورت کے پیشِ نظر مسافتِ سفر،کسٹم ڈیوٹی یا قانونی کاروائی مکمل کرنے کی وجہ سے ہونے والی تاخیر کی گنجائش ہے،  اس سے معاملہ ناجائز نہیں ہو گا۔

البتہ امپورٹر سے مال خریدنے والے شخص کا مال پر قبضہ کیے بغیر آگے بیچنا جائز نہیں، لہذا جب تک مال پورٹ تک نہیں پہنچ جاتا اس وقت تک یہ خریدار مال آگے نہیں بیچ سکتا، اسی طرح مال پر قبضہ کیے بغیر دوسرے خریدار کا تیسرے کو اور تیسرے خریدار کا چوتھے کو مال بیچنا شرعی حکم کے سراسر خلاف اور ناجائز ہے، نیز اس میں سٹہ اور جوئے کا عنصر بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ ہر تاجر مال پر قبضہ کیے بغیر صرف ریٹ کا فرق برابر کرکے نفع یا نقصان کا ذمہ دار ہوتا ہےاور اسی کا نام سٹہ ہے، اس لیے اس خریدوفروخت کی قطعاً اجازت نہیں۔

  1. امپورٹر سے خریدنے والے شخص کا اپنے خریدار سے وعدہٴ بیع کرنا جائز ہے، اسی طرح دوسرے خریدار کا تیسرے سے اور تیسرے کا چوتھے خریدار سے وعدہٴ بیع کرنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ اس میں بھی اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ ہر خریدار مال اپنے قبضہ اور ضمان میں لینے کے بعد آگے حتمی فروخت کرے، ورنہ معاملہ ناجائز اور خلافِ شرع ہو گا اورمذکورہ صورت میں مال کےقبضہ و ضمان میں لینے کی یہی ایک صورت ہے کہ ہر خریدار اپنے فروخت کنندہ سے مال لے کر اس کو اپنے گودام یا ٹینک میں منتقل کرے، اس کے علاوہ مذکورہ صورت میں  کسی گاڑی والے کو وکیل بنا کر بھیج دینا کافی نہیں، کیونکہ یہاں امپورٹر اور آئل مل والے کے درمیان کئی تاجر ہوتے ہیں، جبکہ ایک آدمی خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کی طرف سے وکیل نہیں بن سکتا۔
  2. اگر آخری خریدار کے علم میں ہو کہ فروخت کنندہ نے  مال پر قبضہ کیے بغیر مجھے بیچا ہے تو اس صورت میں اس کا یہ مال خریدنا جائز نہیں،کیونکہ اس صورت میں جوئے اور سٹہ کے کام کی تائید کرنا لازم آتا ہے،  البتہ اگر اس کے علم میں نہ ہو کہ اس نے قبضہ کیے بغیر مجھے بیچا ہے تو اس صورت میں آئل فیکٹری والے کا مال خریدنا جائز ہے۔
  3. اگر امپورٹر اور آئل ریفائن کرنے والے کے درمیان صرف ایک مڈل مین تاجر ہو تو اس صورت میں درمیان والے تاجر کے مال پر قبضہ کرنے کی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت:  مِڈل مین تاجر امپورٹر سے مال خرید لے اور پھر آگے  آئل ڈپو والے سے  آئل کی فروختگی کا صرف وعدہ کرے، اس کے لیے وہ آرڈر لیتے وقت رقم ایڈوانس بھی وصول کر سکتا ہے، آرڈ لینے کے بعد امپورٹر کے پاس اپنی گاڑی بھیجے اور مطلوبہ مقدار میں  آئل ڈپو والے تک پہنچا دے، جب یہ آئل ڈپو والے کے پاس پہنچے گا تو اس وقت صراحتاً زبانی خریدوفروخت کا معاملہ کر لیں اور اگر زبانی معاملہ نہ بھی کریں تو بھی آئل ڈپو والے کے پاس پہنچنے سے تعاطیاً (بغیر ایجاب وقبول کے مال دینا اور لینا)خریدوفروخت کا معاملہ منعقد ہو جائے گا۔ البتہ اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ امپورٹر سے آئل اٹھانے والی گاڑی  مڈل مین تاجر کی طرف سے ہو، تاکہ وہ بطورِ وکیل مال پر قبضہ کرکے آئل ڈپو والےتک پہنچائے اور شرعاً وکیل کا قبضہ موکل کا قبضہ اور ضمان شمار ہوتا ہے۔

  • دوسری صورت یہ کہ مڈل مین آئل خرید کر اپنے گودام یا اسٹور میں رکھے اور پھر اس کے بعد وہ آئل ڈپو والےکو فروخت کرے، اپنے گودام یا اسٹور میں مال رکھنے سے قبضہ اور ضمان دونوں خودبخود مڈل مین کی طرف منتقل ہو جائیں گے۔

واضح رہے کہ اگر امپورٹر اور آئل ڈپو والے کے درمیان صرف ایک مِڈل مین تاجر ہو تومذکورہ بالادونوں صورتیںقابلِ عمل ہیں، لیکن اگر ان کے درمیان کئی مڈل مین تاجر ہوں، جیسا کہ سوال میں تفصیل ذکر کی گئی ہے تو اس صورت میں صرف دوسری صورت شرعاً قابلِ عمل ہو سکتی ہے، پہلی صورتشرعاًقابلِ عمل نہیں ہو گی، کیونکہ گاڑی والا شخص ایک وقت میں صرف ایک آدمی (فروخت کنندہ یا خریدار)کی طرف سے ہی وکیل بن سکتا ہے،لہذا صرف ایک مڈل مین کے گاڑی بھیجنے سے سب مڈل مین(Middle Men) تاجروں کا شرعاً قبضہ نہیں ہو گا، بلکہ ہرمڈل مین تاجر کا کوکنگ آئل پر علیحدہ قبضہ ہونا ضروری ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہر مڈل مین آئل خرید کر اپنے گودام یا ٹینک میں رکھے اور پھر آگے بیچے تو معاملہ درست ہو گا، ورنہ نہیں۔

  1. سوال میں آئل کی خریدوفروخت کی دو صورتیں ذکرکی گئی ہیں، ان دونوں کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے:

پہلی صورت:

        جب امپورٹر تیار شدہ آئل خریدے، جس میں صنعت کا دخل نہ ہوتو آئل بیع سَلم کے طور پر آگے بیچنا جائز ہے، اگرچہ آئل کی مطلوبہ مقدار فی الحال فروخت کنندہ کے پاس موجود نہ ہو، بشرطیکہ اس میں بیع سَلم کی شرائط جیسے آئل کی کوالٹی، مقدار، آئل تیار کرنے والی کمپنی کا نام، آئل کی سپردگی کا وقت اور دیگر تمام امور کا معلوم ہونا ضروری ہے، نیز خریدوفروخت کی مجلس میں تمام ثمن یعنی قیمت پر قبضہ کرنا بھی ضروری ہے، اسی طرح پہلا خریدار دوسرے کے ساتھ ، دوسرا خریدار تیسرے کے ساتھ اور تیسرا خریدار چوتھے شخص کے ساتھ بیع سلم کا معاملہ کر سکتا ہے، اس کو معاصر علمائے کرام نے"السلم الموازی" کا نام دیا ہے۔اس میں خریدی گئی چیز کو آگے نہیں بیچا جاتا، کیونکہ بیع سَلم میں درحقیقت بیچی جانے والی چیز بیچنے والے کے ذمہ میں واجب ہوتی ہے، جس کو فقہائے کرام رحمہم اللہ دَین (ما ثبت فی الذمة یعنی وہ چیز جو کسی کے ذمہ واجب ہو، جیسے قرض وغیرہ) سے تعبیر کرتے ہیں، بعد میں جب وہ چیز عَین (جس کا حسی وجود ہو) کی صورت میں  اداکی جاتی ہے تو وہ درحقیقت اس دَین کا بدل ہوتی ہے جو بیع سَلم کے تحت بیچنے والے کے ذمہ میں واجب تھا اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نے ضرورت کے پیشِ نظر دین کا بدل عین کی صورت میں ادا کرنے کو جائز قرار دیا ہے،  لہذا درمیان کے تاجروں کا آپس میں بیع سلم کرنے کو شرعاً قبضہ سے قبل بیچنا  نہیں سمجھا جائے گا۔

البتہ اس کے بعد جب آئل پورٹ پر پہنچے گا تو پھر تمام تاجروں کا علیحدہ علیحدہ آئل پر قبضہ کرنا ضروری ہے، صرف پہلے یا آخری تاجر کا قبضہ کرنے سے درمیان کے سب تاجروں کا شرعاً قبضہ شمار نہیں ہو گا، کیونکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے مسلم فیہ یعنی بیع سلم میں خریدی گئی چیز کو بھی بغیر قبضہ کے آگے بیچنے کو جائز قرار نہیں دیا، کیونکہ حدیثِ پاک میں قبضہ سے پہلے خریدوفروخت کی ممانعت کی صورتوں مسلم فیہ (بیع سلم میں خریدی گئی چیز) کا بیچنا بھی شامل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر  کوئی تاجر بیع سَلم  کرتے ہوئے یوں کہےکہ  وہ آئل  جو میں نے زید سے خریدا ہے وہ آپ کو بیچتا ہوں تو یہ معاملہ بیع قبل القبض ہونے کی وجہ سے ناجائز ہو گا۔ لہذا ہر تاجر مسلم فیہ پر پہلے قبضہ کرے اور پھر آگے اپنے ذمہ واجب شدہ آئل ادا کرنے کے لیے یہ آئل خریدار کے سپرد کرے تو اس آئل کو بیع سَلم کےتحت فروخت کنندہ کے ذمہ واجب  شدہ آئل کا بدل سمجھا جائے گا اور یہ معاملہ درست ہو جائے گا۔

نیزمذکورہ صورت سے متعلق فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہاں ایک اور مسئلہ بھی ذکر کیا ہے، وہ یہ کہ ہر تاجر قبضہ کرتے وقت چیز کی مقدار ماپے اور پھر آگے بیچے،کیونکہ حدیثِ پاک میں تصریح ہے کہ اگر کوئی شخص چیز خریدے تو اس کو ماپے بغیر استعمال نہ کرے اور آگے بیچنا بھی استعمال کے ہی حکم میں ہے، اس لیے مذکورہ صورت میں سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق بہتر یہی ہے کہ جس طرح پہلا تاجر مشین کے ذریعہ کیل یعنی ماپ کر آئل پر قبضہ کرتا ہے، اسی طرح ہر تاجر خریدے گئے آئل کو پہلے ماپے اور پھر آگے بیچے، تاکہ حدیث پر بھی عمل ہو جائے اور آئل کی مقدار میں کمی بیشی ہونے کی صورت میں جھگڑا اور نزاع بھی واقع نہ ہو، البتہ اگر ہر مڈل مین تاجر کے لیے علیحدہ طور پر آئل کی مقدار کو ماپنا مشکل ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ تاجر ایسےٹینکر یا گیلن میں آئل منتقل کرے جس کی مقدار پہلے سے معلوم ہو، مثلا: اگركسی تاجر نے ہزار یا دو ہزار کلو گرام آئل خریدا ہے تو وہ ایسے ٹینکرمیں آئل منتقل کرے جس کی مقدار ہزار یا دو ہزار کلوگرام ہو، نیز اگر پہلا تاجر ایسے ٹینکر میں آئل ڈالتا ہے جس کی مقدار معلوم اور متعین ہے، جس سے آئل کی مقدار واضح طور پر معلوم ہو جاتی ہے تو اس صورت میں اسی ٹینکر کو آگے بیچنا جائز ہے، کیونکہ یہاں آئل سے بھرے ہوئے اسی ٹینکر کی خریدوفروخت مقصود ہو گی اور اس طرح آئل سے بھرے ہوئے پورے ٹینکر کی خریدوفروخت کرنا بھی جائز ہے۔

دوسری صورت:

جب امپورٹر آئل کے بیج (Oil Seed) خریدے اور پھر اس میں سے آئل نکال کر اس کو ریفائن کرنے کے بعد فروخت کرے تو اس صورت میں چونکہ امپورٹر کی صنعت کا دخل ہوتا ہے، اس لیے اس میں بیع سَلم اور استصناع دونوں  کرنا درست ہے، بیع سلم کی تفصیل پہلی صورت کے تحت گزر چکی ہے اور بیع استصناع کی تفصیل درج ذیل ہے:

امپورٹر سے ایسا مال خریدنا بھی جائز ہے، کیونکہ امپورٹر کا بیج سے آئل نکالنا، اس کو ریفائن کرنا اور ریفائن کرنے کے دوران مختلف قسم کے کیمیکلز ڈال کر آئل کی صفائی،اس کی قدرتی مہک کو دور کرنا اور اس کے رنگ کو خوب صاف ستھرا بنانابھی ایک قسم کی صنعت ہے، لہذا اس میں استصناع کا معاملہ کرنا درست ہے، پھر امپورٹر سے خریدنے والے کا آگے دوسرے شخص کے ساتھ استصناع کا معاملہ کرنا، تیسرے کا چوتھے کے ساتھ اور پھر چوتھے کا پانچویں شخص کے ساتھ استصناع کا معاملہ کرنا جائز ہے، کیونکہ استصناع میں یہ ضروری نہیں کہ فروخت کنندہ خود وہ چیز تیار کرے، بلکہ اگر کسی اور سے تیار کرکے چیز دیدے تو بھی درست ہے۔

استصناع میں بھی اصولی طور پر بیچی گئی چیز بیچنے والےکے ذمہ میں بطورِ دَین واجب ہوتی ہے اور مسلم فیہ کی طرح اس کی ادائیگی بھی عَین کی صورت میں کی جاتی ہے، نیز اس میں بھی مصنوع یعنی استصناع میں خریدی گئی چیز کو قبضہ سے پہلے آگے بیچنا ہرگزجائز نہیں، کیونکہ استصناع میں قبضہ سے پہلے خریدار کی ملکیت نہیں آتی،اس لیے مذکورہ صورت میں امپورٹر سے مال خریدنے کے بعد ہر تاجر کا آئل پر مستقل قبضہ کرنا ضروری ہے اور قبضہ کی صورت یہی ہے کہ ہر تاجر آئل کو اپنے ٹینک یا گودام میں منتقل کرے، البتہ اگر درمیان میں صرف ایک تاجر ہو تو اس میں اپنی گاڑی بھیج کر بطورِ وکیل قبضہ کرنا بھی کافی ہے۔

  1. آئل ریفائنری  والے کا حکم بھی امپورٹر کی طرح ہے، یعنی اگر وہ امپورٹر سے تیار آئل خرید کر بیچنا چاہتا ہواورفی الحال آئل کی اتنی مقدار اس کے پاس موجود نہ ہو تو اس صورت میں خریدار اور فروخت کنندہ آپس میں سَلم کا معاملہ کر سکتے ہیں اور اگر خام تیل یا بیج خرید کر اس کو ریفائن کرکے آگے بیچنا ہو تو اس میں استصناع اور سَلم دونوں طرح کا معاملہ کیا جا سکتا ہے، البتہ ہر تاجر کا آئل پر باقاعدہ قبضہ کرنا ضروری ہے، جیسا کہ اس کی تفصیل جواب نمبر5کے تحت گزر چکی ہے۔ نیز اگر ایسی صورت میں پہلے وعدہٴ بیع کا معاملہ کرلیا جائے اور پھر اس کے بعدقبضہ دیتے وقت  آئل کی خریدوفروخت کا حتمی معاملہ کرلیا جائےتو اس کی بھی اجازت ہے۔
حوالہ جات
سنن ابن ماجه (2/ 750،رقم الحدیث: 2228) دار إحياء الكتب العربية:
حدثنا علي بن محمد قال: حدثنا وكيع، عن ابن أبي ليلى، عن أبي الزبير، عن جابر، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الطعام حتى يجري فيه الصاعان، صاع البائع، وصاع المشتري»
مختصر القدوري (ص: 88) دار الكتب العلمية:
ولا يجوز التصرف في رأس المال ولا في المسلم فيه قبل قبض ولا تجوز الشركة ولا التولية في المسلم فيه قبل قبضه۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 103) دار إحياء التراث العربي:
(ولا يجوز التصرف في رأس المال أو المسلم فيه قبل قبضه) أي قبل قبض المسلم إليه رأس المال وقبل قبض رب السلم المسلم فيه (بشركة أو تولية) لأن المسلم فيه مبيع والتصرف فيه قبل القبض لا يجوز، ولرأس المال شبه بالمبيع فلا يجوز التصرف قبل القبض ففي التولية تمليكه بعوض وفي الشركة تمليك بعضه بعوض فلا يجوز.
وصورة الشركة فيه أن يقول رب السلم لآخر: أعطني نصف رأس المال ليكون نصف المسلم فيه لك.
وصورة التولية أن يقول: أعطني مثل ما أعطيت المسلم إليه حتى يكون المسلم فيه لك وإن خصهما بالذكر لأنهما أكثر وقوعا من غيرهما.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 119) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
قال - رحمه الله - (ولو اشترى المسلم إليه كرا وأمر رب السلم بقبضه قضاء لم يصح وصح لو قرضا أو أمره بقبضه له، ثم لنفسه ففعل) معناه أن يكيله لنفسه بعد القبض ثانيا؛ لأنه اجتمع هنا صفقتان صفقة بين المسلم إليه وبين المشتري منه وصفقة بين المسلم إليه وبين رب السلم كلاهما بشرط الكيل فلا بد من الكيل مرتين قضاء للصفقتين ولم يوجد في الأولى وهو ما إذا أمر المسلم إليه رب السلم بقبضه من البائع قضاء بحقه فلم يصح ووجد في الثانية وهو ما إذا أمره المسلم إليه بقبضه له بأن يكيله، ثم يقبضه بالكيل ثانيا فلهذا جاز والأصل فيه ما روي أنه - عليه الصلاة والسلام - «نهى عن بيع الطعام حتى يجري فيه صاعان صاع البائع وصاع المشتري» ومحمله على ما إذا اجتمعت الصفقتان فيه وأما في صفقة واحدة فيكتفى بالكيل فيه مرة في الصحيح.
حاشية الشلبي على تبيين الحقائق (4/ 119) المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة:
(قوله في المتن ولو اشترى المسلم إليه كرا وأمر رب السلم إلخ) قال الكمال - رحمه الله -: ومن أسلم في كر وهو ستون قفيزا أو أربعون على خلاف فيه والقفيز ثماني مكاكيك
والمكوك صاع ونصف فلما حل الأجل اشترى المسلم إليه من رجل كرا وأمر رب السلم أن يقبضه قضاء عن المسلم فيه فاقتضاه رب السلم بأن اكتاله مرة وحازه إليه لم يكن مقتضيا حقه حتى لو هلك بعد ذلك يهلك من مال المسلم إليه ويطالبه رب السلم بحقه، وإن أمره أن يقبضه له أي للمسلم إليه، ثم يقبضه لنفسه فاكتاله أي للمسلم إليه، ثم اكتاله مرة أخرى لنفسه صار مقتضيا مستوفيا حقه وهذا؛ لأنه اجتمعت صفقتان لشرط الكيل فلا بد من الكيل مرتين لنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن بيع الطعام حتى يجري فيه صاعان صاع البائع وصاع المشتري وهذا هو محمل الحديث على ما مر في الفصل الذي يلي باب المرابحة حيث قال المصنف: ومحمل الحديث اجتماع الصفقتين والفقه فيه أن المستحق بالعقد ما سمي فيه وهو الكر وهو إنما يتحقق بالكيل فكان الكيل معينا للمستحق بالعقد وهذان عقدان فلا بد من توفير مقتضى كل عقد عليه.
ألا ترى أن الثاني لو كاله فزاد لم تطب له الزيادة ووجب ردها حتى لو كان المشتري كاله لنفسه بحضرة المشتري الثاني فقبضه الثاني لا بد من أن يكيله إقامة لحق العقد الثاني، والصفقتان شراء المسلم إليه من بائعه الكر والصفقة التقديرية التي اعتبرت بين المسلم إليه ورب السلم عند قبضه؛ لأن المسلم إليه يصير بائعا من رب السلم ما اشتراه؛ لأن المأخوذ ليس عين حقه فإنه دين وهذا عين قاصصه به وقد أخذوا في صحة الأمر أن يقبضه له، ثم يقبضه لنفسه وعندي ليس هذا بشرط بل الشرط أن يكيله مرتين حتى لو قال له: اقبض الكر الذي اشتريته من فلان عن حقك فذهب فاكتاله، ثم أعاد كيله صار قابضا؛ لأن الفرض أنه لا يصير قابضا لنفسه بالكيل الأول بل بالكيل الثاني فلما قال له: اقبضه عن حقك والمخاطب يعلم أن طريق صيرورته قابضا لنفسه أن يكيله مرة للقبض عن الآمر وثانيا ليصير هو قابضا لنفسه فقبل ذلك صار قابضا حقه كأنه قال له: اذهب فافعل ما تصير به قابضا ولفظ الجامع يفيد ما قلنا فإنه لم يزد على قوله فاكتاله، ثم اكتاله لنفسه جاز اهـ وكتب على قوله ولو اشترى المسلم إليه إلخ ما نصه هذه من مسائل الجامع الصغير وأصل هذا أن العقد إذا وقع مكايلة أو موازنة لم يجز للمشتري أن يتصرف حتى يعيد الكيل أو الوزن ثانيا اهـ أتقاني (قوله ومحمله) أي محمل الحديث اهـ.
تكملة عندة الرعاية على شرح الوقاية (ص:128) باب التوليةوالمرابحة، مكتبة البشرى:
"قوله بغيبة المشتري" فی المقام بحث لیحل السکوت عنہ لحاجة الناس، فنقول: إن فقهاءنا وإن أجمعوا على أن البائع إذا كال أو وزن قبل البيع غائبا عن المشتري : لايجوز بالنهي المنقول أو بنقض القبض ؛ لأن القبض لايتم إلا بالكيل والميزان أو الخلط في المبيع ولا يمنع شيئ منها من جواز الاعتماد ورفع الفساد، كما هو موسوم في عصرنا، وهو أن المصانع وضعوا علامة من العدد والوزن، فيكون كفاية عن تكرار الكيل  وجرى الاعتماد عليه حيث لا ينكره أحد، ولا يجده ناقصا۔
   فإن منعنا عن ھذا یقضی الأمر إلى الحرج بل إلى التعطل ؛ لأن ما في المراكب البحرية والمحمل بالبرية ونحوها مما يباع مرة بعينها ثم يفرق ويباع في السوق شيئا فشيئا وما هذا الأصل التوسيع ويرخص بالأسعار وتقع الناس يعلمه كل من له بصارة في التجارة والحق أنه  ليس مما يخالف أمر الشارع۔
شرح المجلة لمحمد خالد الإتاسي (ج:2ص:400):
الاستصناع نوع من أنواع البيوع، وقد اختلفت عباراتهم عن هذا النوع، قام بعضهم هو عقد على مبيع في الذمة، وقال بعضهم عقد على مبيع في الذمة شرط فيه العمل ، وجه القول الأول أن الصانع لو أحضر عينا كان عملها قبل العقد ورضي  به المستصنع لجاز، ولو كان  شرط العمل من نفس العقد لما جاز؛ لأن الشرط يقع على عمل في المستقبل  لا في الماضي۔
والصحيح هو القول الأخير؛ لأن الاستصناع طلب الصنع فما لم يشترط فيه العمل لا يكون استصناعا، فكان مأخذ الاسم دليلا عليه، لأن العقد على مبيع في الذمة يسمى سلما وهذا يسمي استصناعا ۔۔۔۔۔۔۔وأما إذا أتى الصانع بعين صنعها قبل العقد  ورضي به المستصنع فإنما جاز لا بالعقد الأول بل بعقد اخر وهو التعاطي بتراضيهما، وهو جائز استحسانا۔
فقه البيوع (ج:1ص: 409) مكتبة معارف القرآن كراتشي:
أما على مذهب الإمام مالك رحمه الله تعالى وقول الشيخ الأنور رحمه الله تعالى، فلا إشكال؛ لأن المشتري إن اعتمد على كيل البائع، جاز له أكله بدون اعادة الكيل، سواء أكان بحضرته أم بغيبته۔ وقال الشيخ الأنور رحمه الله تعالى: "وأما إذا كانت الصفقة واحدة، فلا حاجة إلى الكيل ثانيا، بل كفاه كيل البائع إن كان بحضرته عند صاحب الهداية، وعندي مطلقا إذا اعتمد عليه۔"
ويمكن توجيهه بأن النهي في الحديث معلول بعلة الإفضاء إلى النزاع، فإن اعتمد المشتري على وزن البائع انتفت العلة، فانتفى الحكم۔
بداية المجتهد ونهاية المقتصد (3/ 223) دار الحديث – القاهرة:
مسألة: اختلف العلماء فيمن أسلم إلى آخر أو باع منه طعاما على مكيلة ما فأخبر البائع أو المسلم إليه المشتري بكيل الطعام، هل للمشتري أن يقبضه منه دون أن يكيله، وأن يعمل في ذلك على تصديقه؟
فقال مالك: ذلك جائز في السلم، وفي البيع بشرط النقد، وإلا خيف أن يكون من باب الربا، كأنه إنما صدقه في الكيل لمكان أنه أنظره بالثمن.
شرح التلقين (2/ 226) دار الغرب الإِسلامي، بيروت:
 ذكر أن المسلم إليه في الطعام لو قبضه من غريمه بمكيال، وسلم إلى من له عليه السلم بذلك المكيال قبل أن يفرغه، فإن فيه عندهم وجهين: أحدهما المنع قال: وهو المذهب المشهور
 
 
والثاني: الجواز. فالمنع لكونه طعامًا لم تجر فيه الصاعان. والجواز لأنه إذا أسلمه في مكيال له صار ذلك كابتداء الكيل، واستدامة الكيل ها هنا كابتدائه. كما يجوز لمن له طعام في ذمة آخر أن يقبض منه وقد ملأ المكيال من عليه الطعام قبل أن يطلبه هذا به، ولا فائدة في تفريجِ هذا المكيال وإعادته على حسب ما كان من غير زيادة ولا نقصان ومقتضى أصل مذهبنا نحن الاكتفاءُ بهذا، ولا يكلف تفريغَ المكيال وإعادتَه على حسب ما كان. وقد أجاز في المدونة إذا اكتال طعامًا بحضرة رجل أن يبيعه من ذلك الرجل المشاهِد لكيله إذا لم يكن بينهما في ذلك -وأْي ولا عادة. وهذا يشعر بأنه (لا يوجب أن يشعر) في صبّ الطعام في المكيال بعد عقد البيع.
المعايير الشرعية(ص:280):
1/6: السلم الموازي: يجوز للمسلم إليه أن يعقد سلما موازيا مع طرف ثالث للحصول على سلعة مواصفاتها مطابقة للسلعة المتعاقد على تسليمها في السلم الاول ؛ ليتمكن من الوفاء  بالتزامه فيه،  و في هذه الحالة يكون البائع في  السلم الأول  مشتريا في السلم الثاني۔
2/6: ويجوز للمسلم أن يعقد سلما موازيا مستقلا مع طرف ثالث لبيع سلعة مطابقة في مواصفاتها للسلعة التي اشتراها بعقد السلم الأول وفي هذه الحالة يكون مشتريا في السلم الأول وبائعا في السلم الثاني۔
3/6: في كلتاالحالتين المذكورين في البندين1/6و 2/6 لا يجوز ربط بسلم أول بعقد سلم أخر، بل يجب أن يكون كل واحد منهما مستقلا عن الأخر في جميع حقوقه والتزاماته ۔
المعاییر الشرعیة (ص:306):
1/7: يجوزأن تبرم المؤسسة بصفتها مستصنعا عقد استصناع مع الصانع للحصول على مصنوعات منضبطة بالوصف المزيل للجهالة وتدفع ثمنها نقدا عند توقيع العقد وتبيع لطرف أخر بعقد استصناع موامصنوعات تلتزم بصنعها بنفس مواصفات ما اشترته، وإلى أجل بعد أجل الاستصناع الأول وهذا بشرط عدم الربط بين العقدين، (انظر البند4/1/3)
2/7: يجوز أن تجري المؤسسة بصفتها صانع استصناع مع عميل بثمن مؤجل وتتعاقد مع صانع أو مقاول للشراء منه بالاستصانع الموازي لمصنوعات أومبان بنفس المواصفات بثمن حال، بشرط عدم الربط بين العقدين۔۔۔۔۔۔۔۔الخ                   
4/7: لایجوز الربط بین عقد الاستصناع وعقد الاستصناع الموازی ولا یجوز التحلل من التسلیم في أحدهما إذا لم يقع التسليم في الاخر وكذلك التاخير أو الزيادة في التكاليف، ولا مانع من اشتراط المؤسسة على الصانع في الاستصناع الموازي شروطامماثلة للشروط التي التزمت بها مع العميل في الاستصناع الأول أو مختلفة عنها۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی

يكم/جمادی الاخری 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب