021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نوکری کے حصول کے لئے رشوت دینے کا حکم
75255جائز و ناجائزامور کا بیانرشوت کا بیان

سوال

کسی نوکری کو حاصل کر نے کیلئے کچھ پیسے دینا کہ وہ نوکری ہمیں مل پائے، جائز ہے یا نہیں؟ اور آگے جا کر اس کی آمدنی  ہمارے لئے حلال ہو گی یا نہیں ؟ 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ رشوت لینا اور دینا دونوں کبیرہ گناہ  ہیں اور احادیث مبارکہ میں رشوت لینے والے   اور دینے والے دونوں  کے متعلق  سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔ چنانچہ ہر مسلمان کو  ان قبیح افعال سے  حتی الامکان اجتناب کرنا چاہیے۔ البتہ    اگر کوئی ایسی  صورت ہو جہاں ہر ممکن کوشش کر نے کے باوجود بھی آپ کا حق ضائع ہو رہا ہو اور بغیر  رشوت دئیے  اس کا حاصل ہونا ممکن نہ ہو تو پھر اپنے جائز حق   کے حصول کے لئے  مجبوری میں رشوت دینے کی گنجائش ہو گی ، تاہم رشوت دینے پر اللہ تعالی سے توبہ و استغفار  کرنا لازم ہو گا۔

صورت مسئولہ اگر ہر قسم  کوشش  اور تدبیر کے باوجود  آپ کو کوئی جائز نوکری  بغیر رشوت  دئیے نہیں مل رہی ہو   تو آپ کے  لئے رشوت دینے کی گنجائش   اس شرط  کے ساتھ ہو گی کہ  آپ کے اندر اس نوکری  کے امور کو  انجام دینے کی اہلیت ہو  اور آپ کے رشوت دینے کی وجہ سے کسی دوسرے مسلمان بھائی کا حق ضائع نہ ہو رہا ہو ۔ چنانچہ اس صورت میں گناہ رشوت لینے والے پر ہو گا اور  آپ کیلئے اس   نوکری سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی  حلال  ہو گی۔

بصورت دیگر  آپ کیلئے رشوت  دینا جائز نہ ہو گا  اور اگر رشوت دے کر نوکری حاصل کر لی تو  رشوت دینے کا گناہ بھی آپ پر ہی ہو گا اور پھر آمدنی حلال ہو گی یا نہیں اس کا مدار آپ کی اہلیت اور متعلقہ امور کی انجام دہی پر ہو گا۔

حوالہ جات
سنن أبي داود (3/ 326 ط مع عون المعبود):
عن ‌عبد الله بن عمرو قال: "لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌الراشي والمرتشي".
حاشية ابن عابدين ،   رد المحتار ط الحلبي :(6/ 423)
(قوله إذا خاف على دينه) عبارة المجتبى لمن يخاف، وفيه أيضا دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوة يعني في حق الدافع اهـ. (قوله كان يعطي الشعراء) فقد روى الخطابي في الغريب عن عكرمة مرسلا قال: «أتى شاعر النبي - صلى الله عليه وسلم - فقال يا بلال اقطع لسانه عني فأعطاه أربعين درهما "۔
وفيه أيضا  (5/ 72):
أن ‌جواز ‌إقدام ‌المشتري ‌على ‌الشراء ‌للضرورة لا يفيد صحة البيع، كما لو اضطر إلى دفع  رشوة لإحياء حقه جاز له الدفع وحرم على القابض، وكذا لو اضطر إلى شراء ماله من غاصب متغلب لا يفيد ذلك صحة البيع حتى لا يملك البائع الثمن فتأمل۔

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

۴، جمادی الثانی  ۱۴۴۳ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب