021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکاح کے لیے کسی کو وکیل مقرر کرنے کا حکم
75311نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں عام رواج ہے کہ والد صاحب  کسی کووکیل مقرر کر دیتا ہے،وہ دو گواہوں  کے ساتھ  لڑکی  کی اجازت   لینے جاتا ہے ،پھر مجلس نکاح میں نکاح خواں اس سے پوچھتا ہےکہ  آپ نے  بطور وکیل  اتنے مہر معجل یا مؤجل  کے عوض دو گواہوں کی موجودگی میں فلاں بنت  فلاں کو فلاں بن فلاں کے نکاح میں دے دیا ، وکیل کہتا ہے  جی میں نے  فلاں بنت فلاں کو  اتنےمہر معجل یا مؤجل  کے عوض فلاں بن  فلاں  کے نکاح میں دے دیا، پھر  لڑکے سے بھی اسی طرح کا سوال پوچھا جاتا ہے اس کے بعد  خطبہ نکاح ہوتا ہے۔نسبت پہلے سے  ہوجاتی ہے ،اورمہر کا تعین بھی  ہوجاتا ہے لیکن  بسااوقات  مہر کی مقدار کا تعین والد صاحب کی اجازت  سے وکیل  مجلس نکاح میں ہی مقرر کرتا ہے ۔

نیز وکیل کبھی تو ماموں ،چچا یا چچا زاد  کو مقرر کر دیا جاتا ہے اور  کبھی ان کے علاوہ کسی اور کو مقرر کر دیا جاتا ہے۔

ہری پور میں اس طرح ایک   نکاح کے دوران امام صاحب نے کہا کہ والد کی موجودگی  میں اس طرح کرنا درست نہیں، اس پر کافی مشکلات کا سامنا ہوا ،کیا اس طرح سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے ،اور والد کسی کو وکیل نکاح مقرر کر سکتا ہے؟

کیا فرماتے ہیں علماء کرام  اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں عام رواج ہے کہ والد صاحب  کسی کووکیل مقرر کر دیتا ہے،وہ دو گواہوں  کے ساتھ  لڑکی  کی اجازت   لینے جاتا ہے ،پھر مجلس نکاح میں نکاح خواں اس سے پوچھتا ہےکہ  آپ نے  بطور وکیل  اتنے مہر معجل یا مؤجل  کے عوض دو گواہوں کی موجودگی میں فلاں بنت  فلاں کو فلاں بن فلاں کے نکاح میں دے دیا ، وکیل کہتا ہے  جی میں نے  فلاں بنت فلاں کو  اتنےمہر معجل یا مؤجل  کے عوض فلاں بن  فلاں  کے نکاح میں دے دیا، پھر  لڑکے سے بھی اسی طرح کا سوال پوچھا جاتا ہے اس کے بعد  خطبہ نکاح ہوتا ہے۔نسبت پہلے سے  ہوجاتی ہے ،اورمہر کا تعین بھی  ہوجاتا ہے لیکن  بسااوقات  مہر کی مقدار کا تعین والد صاحب کی اجازت  سے وکیل  مجلس نکاح میں ہی مقرر کرتا ہے ۔

نیز وکیل کبھی تو ماموں ،چچا یا چچا زاد  کو مقرر کر دیا جاتا ہے اور  کبھی ان کے علاوہ کسی اور کو مقرر کر دیا جاتا ہے۔

ہری پور میں اس طرح ایک   نکاح کے دوران امام صاحب نے کہا کہ والد کی موجودگی  میں اس طرح کرنا درست نہیں، اس پر کافی مشکلات کا سامنا ہوا ،کیا اس طرح سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے ،اور والد کسی کو وکیل نکاح مقرر کر سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بالغ لڑکی اپنےنکاح کا خود  بھی ایجاب وقبول کر سکتی ہے ،اور کسی  دوسرے شخص کو وکیل بھی بنا  سکتی ہے۔اگر لڑکی کے والد کی طرف سے تجویز کردہ وکیل پر لڑکی کو کوئی اعتراض نہیں اور وہ اسے برقرار رکھتی ہے تو بہت مناسب ہے۔ وکیل غیر محرم بھی ہوسکتا ہے اور اس سے پردے  میں رہ کر بات  کی جا  سکتی ہے،لیکن اگر محرم ہوتو زیادہ بہتر ہے ۔

حوالہ جات
قال الإمام علاءالدین رحمہ اللہ :أما الذي يرجع إلى الموكل فهو أن يكون ممن يملك فعل ما وكل به بنفسه؛ لأن التوكيل تفويض ما يملكه من التصرف إلى غيره.
(البدائع الصنائع:6/20)
وأماالتوكيل۔۔۔۔ويجوز بالنكاپپح والخلع والصلح عن دم العمد والكتابة والإعتاق على مال والصلح على إنكار؛ لأنه يملك هذه التصرفات بنفسه فيملك تفويضها إلى غيره.
(البدائع الصنائع:6/23)
قال الإمام ابن الھمام رحمہ اللہ:
والولي العاقل البالغ الوارث، فخرج الصبي والمعتوه والعبد والكافر على المسلمة.
الولاية في النكاح نوعان: ولاية ندب واستحباب وهو الولاية على البالغة العاقلة بكرا كانت أو ثيبا، وولاية إجبار وهو الولاية على الصغيرة بكرا كانت أو ثيبا، وكذا الكبيرة المعتوهة والمرقوقة. وتثبت الولاية بأسباب أربعة: بالقرابة، والملك، والولاء، والإمامة.
(فتح القدیر:3/255)
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:
والأصل عندنا أن كل من ملك قبول النكاح بولاية نفسه انعقد بحضرته.(ردالمحتار:3/24)
(قوله: أمر الأب رجلا) أي وكله والضمير البارز في صغيرته للأب والمستتر في زوجها للرجل المأمور، وكونه رجلا مثال، فلو كان امرأة صح لكن اشترط أن يكون معها رجل أو رجل وامرأة كما أفاد في البحر (قوله:؛ لأنه يجعل عاقدا حكما) لأن الوكيل في النكاح سفير، ومعبر ينقل عبارة الموكل، فإذا كان الموكل حاضرا كان مباشرا؛ لأن العبارة تنتقل إليه وهو في المجلس، وليس المباشر سوى هذا.(ردالمحتار:3/24)

سہیل جیلانی

دارالافتاء، جامعۃ الریشد، کراچی

تاریخ: 07/جمادی الثانیۃ/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سہیل جیلانی بن غلام جیلانی

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب