021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ہبۃ المشاع کا حکم
75299ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میری پھو پھی کا نتقال ہوا، ان کے والدین اور شوہر پہلے  فوت ہو چکے تھے، اولاد کوئی نہیں تھی، تین بھائی تھے وہ بھی پہلے فوت ہوئے، اور چار بہنیں تھیں جن میں سے ان کے انتقال کے وقت ایک زندہ ہے، اس کے علاوہ کل چار بھتیجے اور  پانچ بھتیجیاں ہیں۔

سب سے چھوٹی بھتیجی سارا خان کو انہوں نے پالا تھا، پھوپھی کے پاس  216 گز پر مشتمل ایک مکان تھا جس میں سے108  گز معین الدین کو اور108 گز چھوٹی بھتیجی یعنی سارا خان کو گفٹ کیا، میں ان کا سب سے بڑا  بھتیجا ہوں، لیکن ایک فلور میرے پاس ہے اور دوسرا فلور چھوٹی بھتیجی کے پاس ہے، 108  گز کو الگ نہیں کیا تھا، اس کے بعد 2020  میں پھوپھی نے  ہم دونوں کو یہ مکان بیچ دیا اور ہم سے پیسے نہیں لیے۔

ہبہ نامہ اور بیع نامہ ساتھ منسلک ہے۔

اب باقی بھتیجے ان کے  ترکہ میں  حصہ مانگ رہے ہیں، کیا یہ گھر ہبہ اور بیع کے بعد بھی میراث میں تقسیم ہو گا؟؟؟

وضاحت از مستفتی: بیع نامہ میں یہ بات درج ہے کہ ضیاء اللہ نامی شخص نے یہ گھر  ممتاز جہاں اور معین الدین کو بیچا تھا، جس کے بعد یہ گھر ان دونوں کے درمیان مشترک ہو گیاتھا ، بقول مستفتی  اس نے اپنا حصہ اپنی پھوپھی کو بیچ دیاتھا اور یہ پورا گھر ان کی پھوپھی کا ہی ہو گیا تھا، مزید یہ کہ مستفتی کے بقول    بیع نامہ  حقیقۃ خرید و فروخت کا معاملہ  کرنے کےلیے نہیں بنایا گیا  تھا بلکہ  محض لفظی او ر قانونی  کاروائی  پورا کرنے کےلیے بنایا گیاہے، اور بیع نامہ میں جو یہ بات مذکور ہےکہ  خریدو فروخت کے معاملہ کے وجہ سے لازم ہونے والی قیمت ادا کردی گئی ہے وہ بھی محض لفظی کاروائی ہے، اس بیع نامہ کی وجہ سے ہم پر کوئی قیمت لازم نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی ہم نے کسی طرح کی کوئی قیمت ادا کی ۔

وضاحت از مستفتی:  گھر پر اس طرح سے قبضہ نہیں دیا گیا کہ پھوپھی نے اپنا سارا سامان نکال کر ہمارے حوالے کیا ہو، بلکہ  پھوپھی اور ان کا سارا سامان اسی گھر میں تھا، تا ہم ہم نے آپس میں بات طے کر لی تھی کہ نیچے والا پورشن میرے قبضہ میں رہے گا اور اوپر والا پورشن سارااور پھوپھی کے قبضہ میں، اسی وجہ سے نیچے والے پورشن کا کرایہ بھی میں ہی وصول کرتا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 قابل  تقسیم چیز   اگر ایک سے زائد لوگو ں کو  گفٹ کی جائے تو وہاں اس چیز کو متعین  اور  تقسیم کر کے  گفٹ کرنا ضروری ہے، اگر تعیین اور تقسیم کے بغیر ہی کوئی چیز ایک سے زیادہ لوگوں کو محض   متناسب حصہ طے کر کے گفٹ کی جائے تو   ہبہ اور گفٹ کا یہ  معاملہ شرعا ناجائز  ہو گا اور  اس طرح گفٹ کرنے کے بعد  گفٹ کی ہوئی چیز اگر     بغیر تقسیم کے حوالہ   بھی کر دی جائے تو اس  سے  گفٹ کی ہوئی چیز میں  ان لوگوں کی ملکیت   ثابت نہیں ہوگی  جن کو وہ چیز گفٹ کی گئی ہے۔

نیز ہبہ اور گفٹ کی صحت   کےلیے یہ بھی ضروری ہے کہ  گفٹ کی ہوئی چیزپر   ا  س طرح شرعی   قبضہ کر لیا جائے کہ وہ چیز گفٹ کرنے والے کے سامان و  ملکیت  کے ساتھ مشغول نہ ہو، یعنی اگر گھر گفٹ کیا جائے تو   گھر پر  قبضہ اس وقت  متحقق ہو گا جب گفٹ کرنےوالا خود اور اپنا تمام سامان  اس گھر سے نکال کر  خالی گھر  اس شخص کے حوالہ کر دے جس کو گھر گفٹ کیا جا  رہاہے، اس طرح سے قبضہ کرا لینے کے بعد  اگر گفٹ کرنے والا دوبارہ اس گھر میں  رہنا شروع کر دے تو اس سے ہبہ کے معاملے پر فرق نہیں پڑے گا۔

صورت مسئولہ میں چونکہ قابل تقسیم گھر کو تعیین اور تقسیم کے بغیر محض  متناسب حصہ  طے کر کے گفٹ کیا گیا ہے اور پھر اس گھر پر شرعی قبضہ بھی نہیں ہو ا، اس لیے ہبہ کا یہ معاملہ  ناجائزہے اور اس سےمعین الدین اور  سارا خان کی ملکیت اس گھر میں ثابت نہ ہو گی۔

سوال میں موجود خرید و فروخت اور بیع نامہ کا حکم یہ ہے کہ یہاں اصلا چونکہ خرید و فروخت کا معاملہ نہیں کیا گیا  اور نہ ہی خرید و فروخت کا معاملہ کرنا مقصود تھا،  اس لیے  اس طرح کی تحریر اور ایگریمنٹ لکھنے سے  یہ خرید و فروخت کا معاملہ  نہیں بنے گا اور نہ ہی اس ایگریمنٹ سے گھر میں  معین الدین اور سارا خان کی  ملکیت ثابت ہو گی۔

لہذا مذکورہ مکان بدستور میت کے ترکہ میں شامل رہے گا  ، اور تما ورثہ کا اس میں حق ہو گا۔

حوالہ جات
الأشباه والنظائر - حنفي (ص: 39)
القاعدة الثانية : الأمور بمقاصدها.
الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 326)
 وإنما لم تجز هبة المشاع فيما يقسم؛ لأن القبض منصوص عليه في الهبة قال - عليه الصلاة والسلام - «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» فيشترط كمال القبض والمشاع لا يقبله إلا بضم غيره إليه وذلك غير موهوب ولأن في تجويزه إلزامه شيئا لم يلتزمه وهو القسمة.
وقوله فالهبة فاسدة أي لا يثبت الملك فلو أنه وهب مشاعا فيما يقسم وسلمه على الفساد هل يثبت الملك ويقع مضمونا كما في البيع الفاسد أم لا؟ فيه اختلاف المشايخ والمختار أنه لا يثبت الملك ويجب الضمان قوله (فإن قسمه وسلمه جاز).

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۷ جماد ی الثانی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب