021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم میراث
75300میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

اگرمذکورہ گھر میں ہماری ملکیت نہیں آئی تو اس گھر کواور اس کے علاوہ پھوپھی کی کچھ رقم بھی ہے اس کو ورثہ کے درمیان کیسے تقسیم کریں گے؟

ان کی وفات کے وقت ان کے  مندرجہ ذیل  رشتہ دار زندہ تھے:

ایک بہن ( نور جہاں)، چار بھتیجے اور پانچ بھتیجیاں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگر میت  کی وفات کے وقت اس کے  ورثا ء میں صرف اس   کی ایک  بہن ،چار  بھتیجے اور  پانچ بھتیجیاں موجود  تھیں   تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس  صورت میں میت کی بھتیجیاں میراث سے محروم رہیں گی اور انہیں میت کی میراث سے حصہ نہیں ملے گا   ، میراث کے حقدار محض میت کے  چار بھتیجے اور ایک  بہن ہے ، جن میں تقسیم میراث  کا طریقہ درج ذیل ہے:

میت کے کل  ترکہ کو آٹھ  برابر حصوں میں  تقسیم کیا جائیگا، جن میں سے چار حصے  میت کی بہن نور جہاں کو دیے جائیں گے اور  بقیہ چار حصے چار بھتیجوں میں برابر تقسیم کر دیے جائیں گے یعنی ہر بھتیجے کو ایک حصہ ملے گا، فیصدی اعتبار سے   تقسیم  یوں ہو گی کہ     میت کےکل ترکہ   میں سے    50% میت کی بہن نور جہاں کو دیا جائیگا اور  بقایا 50%میں سے ہر بھتیجے کو 12.5%  فیصد دیاجائیگا۔

نقدی اور گھر کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر گھر کو  قابل انتفاع رکھتے ہوئے تما م ورثہ میں ان کے حصص اور فیصد کے اعتبار سے تقسیم کرنا ممکن ہو تو پھر بہتر یہی ہے کہ  گھر  اور  نقدی کو تمام ورثاء میں  ان کے حصص اور فیصد کے اعتبار سے  الگ الگ تقسیم کیا جائے۔

البتہ  اگر  تمام ورثہ میں گھر کو تقسیم کرنے سے ورثہ کےلیے اس گھر سے انتفاع مشکل یا ناممکن ہو جائے یا پھر ورثہ خود ہی گھر کو قیمت کے اعتبار سے تقسیم کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ   گھر کی مارکیٹ قیمت لگا کر اس میں ( یا اس کو بیچ کر  اس کی قیمت میں) میت کی طرف سے چھوڑی جانے والی   نقدی رقم کر جمع کر دیا جائیگا اور مجموعی رقم کو   ورثہ پر ان کے ذکر کیے گئے  حصص اور فیصد کے اعتبار سے تقسیم کر دیا جائے۔

ذیل کے نقشہ میں یہ تفصیل  مزید وضاحت سے دکھائی گئی ہے:

فیصدی حصے

عددی حصے

ورثہ

نمبر شمار

50%

4

بہن ( نور جہاں)

1

12.50%

1

بھتیجا1

2

12.50%

1

 بھتیجا2

3

12.50%

1

بھتیجا3

4

12.50%

1

بھتیجا4

5

حوالہ جات
لدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 773)
(والثلثان لكل اثنين فصاعدا ممن فرضه النصف) وهو خمسة البنت وبنت الابن والأخت لأبوين والأخت لأب والزوج (إلا الزوج) لأنه لا يتعدد، والله تعالى أعلم. ............         
فصل في العصبات العصبات النسبية ثلاثة عصبة بنفسه وعصبة بغيره وعصبة مع غيره (يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى خلافا لهما وللشافعي.قيل وعليه الفتوى (ثم جزء جده العم) لأبوين ثم لأب ثم ابنه لأبوين ثم لأب (وإن سفل ثم عم الأب ثم ابنه ثم عم الجد ثم ابنه) كذلك وإن سفلا فأسبابها أربعة: بنوة ثم أبوة ثم أخوة ثم عمومة (و) بعد ترجيحهم بقرب الدرجة (يرجحون) عند التفاوت بأبوين وأب كما مر (بقوة القرابة فمن كان لأبوين) من العصبات ولو أنثى كالشقيقة مع البنت تقدم على الأخ لأب (مقدم على من كان لأب) لقوله - صلى الله عليه وسلم - «إن أعيان بني الأم يتوارثون دون بني العلات» . والحاصل: أنه عند الاستواء في الدرجة يقدم ذو القرابتين وعند التفاوت فيها يقدم الأعلى.

سعد مجیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۷ جماد ی الثانی ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سعد مجیب بن مجیب الرحمان خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب