021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مدرسہ کی دکان پر بغیر ثبوت کے دعوی کرنا درست نہیں
75258دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

زید(فرضی نام) نے ایک دکان جامعہ دارالعلوم نواب شاہ کو بطورِ عطیہ ہبہ کی، باقاعدہ اسٹامپ پیپر پر مدرسہ کے مہتمم صاحب کو تحریر لکھ کر دی، جس پر زید(فرضی نام) کے اور ان کے بیٹے سید عمرو (فرضی نام) کے دستخط موجود ہیں، کیونکہ اس وقت دکان سید عمرو (فرضی نام) کے قبضہ میں تھی، اس اسٹامپ پیپر کی کاپی ساتھ منسلک ہے،  پھر مرحوم زید(فرضی نام) نے اپنے بیٹے سید اقبال کو دکان کی خریدار ی کے لیے تیار کیا اور مدرسہ کے متولی مہتمم صاحب اور واہب نے وہ دکان چودہ لاکھ روپے میں فروخت کی، جس میں سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے  تا حال باقی ہیں، حقیقت میں اس دکان کی قیمت چودہ لاکھ سے کم تھی، لیکن قریب ہونے کی وجہ سے والد صاحب کے حکم پر اس نے خرید لی، تقریباً دو سال بعد زیدکا انتقال ہو گیا، انتقال کے بعد زید (فرضی نام ) کے پوتے اور سید عمرو (فرضی نام) نے ایک تحریر ظاہر کی، جو کہ زید (فرضی نام ) کی حیات کے آخری مہینوں میں لکھی گئی تھی، اس تحریر میں تقسیمِ وراثت میں غلطی کے عنوان سے وراثت میں بعض غلطیوں کی نشان دہی کرنے کے علاوہ مذکورہ دکان کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جس میں یہ تحریر ہے کہ میری دکان  جو جامع کلاتھ میں واقع ہے، اس کی رجسٹری عمرو (فرضی نام) کے نام پع کروائی ہے، یہ اس کو گفٹ ہے، عمرو (فرضی نام) اس دکان کا مالک ہے، جو کہ فی الحال میرے بیٹے اقبال کے قبضہ میں ہے، عمرو (فرضی نام) جب چاہے اس کو خالی کروا سکتا ہے، لیکن میری خواہش کے مطابق اس دکان کا کچھ حصہ مدرسہ دارالعلوم نواب شاہ کو دے دیا جائے، اس تحریر سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مذکورہ دکان اصلاً مرحوم زید (فرضی نام ) کی ہے، ان کے بیٹے عمرو (فرضی نام) کی نہیں، صرف کاغذات اس کے نام پر ہیں، اس تحریر کی روشنی میں درج ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:

 اگر كوئی شخص اپنی جائیداد بطورِ ہدیہ مالکانہ  حقوق کے ساتھ  کسی کو دیدے اور پھر وہ جائیداد فروخت بھی کروائے، جس کی کچھ رقم بھی وصول ہو جائے تو کیا وہ چیز دوبارہ اپنے کسی بیٹے کوبطورِ گفٹ دی جا سکتی ہے؟

مذکورہ دکان کا قبضہ بھی عمرو (فرضی نام) کو نہیں دیا گیا، صرف اس کے نام پر ہے، کیا بغیر قبضہ کے یہ ہبہ درست ہے؟

اگر اس کو وصیت قرار دیا جائے تو کیا بیٹے کے لیے یہ وصیت شرعاً جائز ہے، جبکہ شرعی اصول ہے کہ بیٹے کے لیے وصیت کرنا درست نہیں؟

مدرسہ نے جو ساڑھے آٹھ لاکھ روپے وصول کیے ہیں، کیا ان کی ادائیگی مدرسہ پر لازم ہے؟جبکہ وہ رقم خرچ کی جاچکی ہے۔

مرحوم کی مذکورہ تحریر خود مدعی کی ہے، جس پر ایک دستخط مدعی عمرو (فرضی نام) کے اور مزید ایک گواہ کے دستخط ہیں، ایسی صورت میں اس تحریر کا کیا حکم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  1. صورتِ مسئولہ میں جب سید مظفر صاحب نے اپنی دکان مدرسہ کو بطورِ عطیہ دے دی تو دکان مدرسہ کی ملکیت میں چلی گئی اور مدرسہ کو کوئی چیز دینا صدقہ کا حکم رکھتا ہے اور فقہائے کرام رحمہم اللہ نے صراحت کی ہے کہ صدقہ سے رجوع کرنا درست نہیں۔
  2. یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ قبضہ کے بغیر ہبہ درست اور مکمل نہیں ہوتا،لیکن مذکورہ صورت میں سرے سے ہبہ کا معاملہ ہی درست نہیں ہوا، کیونکہ وہ دکان سید مظفر علی کے مدرسہ کو عطیہ کرنے کی وجہ سے ان کی ملکیت سے نکل چکی تھی، لہذا اگر بالفرض اس کے بعد  سید مظفر علی نے یہ  دکان اپنے بیٹے منور علی کو دی ہو تو بھی غیرمملوک چیز کا ہبہ ہونے کی وجہ سے اس ہبہ کا شرعاًاعتبار نہیں۔
  3. سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق یہ معاملہ شرعا وصیت میں بھی شمار نہیں  كيا جا سکتا، کیونکہ تحریر میں وصیت کے الفاظ ذکر نہیں کیے گئے، بلکہ عطیہ کے الفاظ مذکور ہیں، وصیت کے لیے ضروری ہے کہ آدمی یوں کہے کہ میری وفات کے بعد یہ چیز فلاں کی ہے یا فلاں کو دے دی جائے وغیرہ،  اس لیے اس کو وصیت بھی  نہیں قرار دیا جا سکتا۔
  4.  جو رقم مدرسہ کی انتظامیہ نے وصول کی ہے وہ مدرسہ کی ملکیت تھی، لہذا وہ رقم مدرسہ یا مصالح مدرسہ پر خرچ کرنا بلاشبہ درست ہے، نیز جو رقم ابھی دکان خریدنے والے کے ذمہ باقی ہے اس کا مستحق بھی شرعاً مدرسہ ہی ہے، لہذا وہ رقم دکان کے مدعی کو کسی شرعی وجہ کے بغیر ادا کرنا ضروری، بلکہ جائز نہیں، کیونکہ وہ رقم در حقیقت مدرسہ کے وقف فنڈ میں داخل ہو کر فقراء ومساکین کا حق بن چکی ہے، جس کو واپس کرنے کا مہتممِ مدرسہ کو بھی حق حاصل نہیں۔
  5. اصولی طور پر اگر بالفرض مذکورہ تحریر شرعی گواہوں سے ثابت اور درست بھی ہو تو بھی پہلے دو سوالوں کے جواب میں ذکر کی گئی وجوہ (1۔ صدقہ سے رجوع کا جائز نہ ہونا، 2۔ غیر مملوک چیز کا ہبہ درست نہ ہونا) کی وجہ سے اس تحریر کا اعتبار نہیں، خصوصاً جبكہ مذکورہ صورت میں مدعی کے پاس اپنے دعوی پر شرعی گواہ بھی موجود نہیں، بلکہ صرف ایک گواہ موجود ہے، اس لیے یہ تحریر شرعاً معتبر نہیں سمجھی جائے گی، لہذا مرحوم کی طرف سے دی گئی دکان اولاً مدرسہ کی شمار ہو گی اور پھر مرحوم کے بیٹے کے خریدنے کے بعد اب اس بیٹے کی ملکیت سمجھی جائے گی اور مدعی کو اس تحریر کی بنیاد پر مذکورہ دکان میں کسی قسم کے دعوی کا حق حاصل نہیں ہے۔
حوالہ جات
العناية شرح الهداية (9/ 56) دار الفكر، بيروت:
(الصدقة كالهبة) الصدقة لا تتم إلا مقبوضة لأنها تبرع كالهبة فلا تجوز فيما يحتمل القسمة مشاعا، لما بينا في الهبة أن الشيوع يمنع تمام القبض المشروط، ولا رجوع فيها؛ لأن المقصود هو الثواب وقد حصل فصارت كهبة عوض عنها.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (7/ 297) دار الكتاب الإسلامي، بیروت:
(قوله والصدقة كالهبة لا تصح إلا بالقبض ولا في مشاع يحتمل القسمة) لأنها تبرع كالهبة فإن قلت قد تقدم أن الصدقة لفقيرين جائزة فيما يحتمل القسمة بقوله وصح تصدق عشرة لفقيرين قلت المراد هنا من المشاع أن يهب بعضه لواحد فقط فحينئذ هو مشاع يحتمل القسمة بخلاف الفقيرين فإنه لا شيوع كما تقدم (قوله ولا رجوع فيها) أي في الصدقة لأن المقصود هو الثواب وقد حصل۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (10/ 411) دار الفكر،بيروت:
الوصية في اللغة اسم بمعنى المصدر هو التوصية، ومنه قوله تعالى {حين الوصية} [المائدة: 106] ثم سمى الموصى به وصية، ومنه قوله تعالى {من بعد وصية توصون بها} [النساء: 12] وفي الشريعة: تمليك مضاف إلى ما بعد الموت بطريق التبرع، سواء كان ذلك في الأعيان أو في المنافع، كذا في عامة الشروح.
قال بعض المتأخرين: ثم الوصية والتوصية وكذا الإيصاء في اللغة: طلب فعل من غيره ليفعله في غيبته حال حياته أو بعد وفاته. وفي الشريعة: تمليك مضاف إلى ما بعد الموت على سبيل التبرع عينا كان أو منفعة، هذا هو التعريف المذكور في عامة الكتب، والوصية بهذا المعنى هي المحكوم عليها بأنها مستحبة غير واجبة۔
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 514) دار احياء التراث العربي – بيروت:
قال: "ولا تجوز لوارثه" لقوله عليه الصلاة والسلام: "إن الله تعالى أعطى كل ذي حق حقه، ألا لا وصية لوارث" ولأنه يتأذى البعض بإيثار البعض ففي تجويزه قطيعة الرحم ولأنه حيف بالحديث الذي رويناه، ويعتبر كونه وارثا أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية لأنه تمليك مضاف إلى ما بعد الموت، وحكمه يثبت بعد الموت. "والهبة من المريض للوارث في هذا نظير الوصية" لأنها وصية حكما حتى تنفذ من الثلث، وإقرار المريض للوارث على عكسه لأنه تصرف في الحال فيعتبر ذلك وقت الإقرار.
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

8/جمادی الاخری 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب