021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دیگرذوی الفروض نہ ہونے کی صورت میں اکیلی بیٹی تمام میراث کی حق دار ہو گی
75268میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

 میرا ایک مسئلہ اور سوال ہے میرے والد جن کا نام شکیل احمد خان کا انتقال 2016 جولائی میں ہو چکا ہے، میرے والد کی کل ایک شادی تھی، جو میری امی سے ہوئی، لیکن کچھ عرصہ قبل ان کی وفات سے میرے والدین کے درمیان خلع واقع ہو چکی تھی، میرے والدین کی کل ایک اولاد تھی، جو میں تھی، میرا کوئی اور بہن یا بھائی نہیں ہے، میرے والد کے انتقال سے پہلے ہی میرے والد کی والدہ یعنی میری دادی اور دیگر تمام کا انتقال ہوچکا تھا، لہذا جب میرے والد کا انتقال ہوا تو ان کا ایک ہی خون کا رشتہ موجود تھا ،وہ میں تھی اور کوئی نہیں تھا،میرا سوال اور مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد کا ایک بینک اکاؤنٹ تھا، جو ان کے نام پر تھا،جس میں کچھ رقم موجود تھی،اب اس رقم کا حقدار کون ہے؟ جو اس کو نکلواسکے اور استعمال کر سکے،میرے اس سوال کا جواب امید ہے آپ جلدی ارسال کریں گے میں منتظر ہوں گی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اگر آپ کے والد مرحوم کا ان کے انتقال کے وقت ذوی الفروض میں سے کوئی اور قریبی رشتہ دار موجود نہیں تھا، بلکہ ان کی صرف آپ ہی اکیلی وارث تھیں تو اس صورت میں مرحوم کی تمام جائیداد کی شرعاً آپ ہی وارث اور حق دار ہیں، لہذا مذکورہ اکاؤنٹ میں موجود رقم اور مرحوم کا دیگر ترکہ آپ استعمال کر سکتی ہیں، البتہ یہ بات یاد رکھیں کہ ورثاء کا حق تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے، مرحوم کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کرنے اور جائز وصیت  پر عمل کرنے کے بعدثابت ہوتا ہے، اس لیے مذکورہ صورت میں اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض واجب الاداء ہو یا انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس صورت میں مرحوم کا  قرض ادا کرنے اور کل ترکہ کے ایک تہائی(1/3)  تک اس وصیت پر عمل کرنے کے بعد آپ کو مرحوم کی وراثت استعمال کرنے کا حق حاصل ہو گا۔

حوالہ جات
السراجي في الميراث: (ص:8تا10) مكتبة البشرى كراتشي:
فيبدأ بأصحاب الفرائض وهم الذين لهم سهام مقدرة في كتاب الله تعالى ثم بالعصبات من جهة النسب، والعصبة : كل من يأخذ  ما أبقته  أصحاب الفرائض وعند الإنفراد يحرز جميع المال ، ثم بالعصبة من جهة السبب وهو مولى العتاقة ، ثم عصبته على الترتيب ثم الرد على ذوي الفروض النسبية بقدر حقوقهم، ثم  ذوي الأرحام ثم مولى الموالاة۔
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (6/ 763) دار الفكر-بيروت:
أي السهام المقدرة وهم اثنا عشر من النسب ثلاثة من الرجال وسبعة من النساء واثنان من التسبب وهما الزوجان (ثم بالعصبات) أل للجنس فيستوي فيه الواحد والجمع وجمعه للازدواج (النسبية) لأنها أقوى (ثم بالمعتق) ولو أنثى وهو العصبة السببية(ثم عصبته الذكور) لأنه ليس للنساء من الولاء إلا ما أعتقن (ثم الرد) على ذوي الفروض النسبية بقدر حقوقهم (ثم ذوي الأرحام ثم بعدهم مولى الموالاة) كما مر في كتاب الولاء وله الباقي بعد فرض أحد الزوجين ذكره السيد ۔

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

9/جمادی الاولی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب