75335 | شرکت کے مسائل | شرکت سے متعلق متفرق مسائل |
سوال
میں اپنی اولادکوناچاقی اورانتشارسے بچانے کیلئے جس کاخدشہ بہت زیادہے ،کیااپنی حیات میں اپنی اولاد اوراپنی بیوی کے درمیان تقسیم کی وصیت لکھ سکتاہو،جس کااطلاق میری وفات کے بعد ہو،اس تقسیم کی وصیت میں سب کے لئے برابرحصہ طے کرناہے یاکچھ کمی بیشی کے ساتھ بھی کرسکتاہوں،نیزکیااس میں والدہ کابھی حصہ ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اللہ تعالیٰ نے ہروارث کاحصہ متعین فرمادیا ہے، اس لیے کسی وارث کے حق میں وصیت شرعاً لغو اور باطل ہے، جب تک آپ باحیات ہیں، آپ کو اپنی ملکیت میں ہرطرح کے تصرف کا اختیار ہے، اپنی زندگی میں اپنی اولاد ،والدہ اوربیوی کے درمیان جائداد وغیرہ تقسیم کرنا چاہیں تو اس کا بھی حق ہے اور اور اس میں مساوات (برابری کرنا) افضل ہے، البتہ میراث کی تقسیم مُورث کے مرنے کے بعد ہوتی ہے، لہٰذا انتقال سے پہلے کسی وارث کا کتنا حصہ ہے اس کو حتمی طور پر نہیں لکھا جاسکتا، اور نہ آپ کو اپنے انتقال سے پہلے اس کو متعین کرنے کا اختیار ہے۔ ہاں ایک تہائی مال میں شریعت نے وصیت کی اجازت دی ہے، لیکن یہ وصیت شرعی وارث کے علاوہ کے لیے ہوگی،صیت نامہ لکھ کر رکھنا اچھی بات ہے اس کا طریقہ ہے کہ آپ یہ لکھدیں میرے مرنے کی صورت میں جائیداد شریعت کے مطابق تقسیم کی جائے۔
حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔۔
محمد اویس بن عبدالکریم
دارالافتاء جامعۃ الرشید
11/06/1443
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |