021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوہ اور بچوں میں میراث کی تقسیم
75389میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا، ان کے ورثا میں ایک زوجہ، تین بیٹے، اور دو بیٹیاں ہیں۔ مرحوم کا ترکہ اس کے ورثا میں کیسے تقسیم ہوگا اور ہر وارث کا کتنا کتنا حصہ بنے گا؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ مرحوم کے والدین، دادا، دادی اور نانی کا انتقال اس کی زندگی میں ہوگیا تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے والد صاحب مرحوم نے انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں نقدی، سونا، چاندی، جائیداد، مکانات، کاروبار غرض جو کچھ چھوٹا، بڑا ساز و سامان چھوڑا ہے، یا اگر کسی کے ذمہ اس کا قرض تھا، تو وہ سب اس کا ترکہ ہے۔ اس میں سے سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، البتہ اگر یہ اخراجات کسی نے بطورِ احسان اٹھائے ہوں تو پھر انہیں ترکہ سے نہیں نکالا جائے گا۔ اس کے بعد دیکھا جائے اگر اس کے ذمے کسی کا قرض ہو تو وہ ادا کیا جائے۔ اس کے بعد اگر اس نے کسی غیر وارث کے حق میں کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ کی حد تک اس کو پورا کیا جائے۔ اس کے بعد جو کچھ بچے، اس کے کل چونسٹھ (64) حصے کر کے بیوہ کو آٹھ (8) حصے، تین بیٹوں میں سے ہر ایک کو چودہ، چودہ (14، 14) حصے، اور دو بیٹیوں میں سے ہر ایک کو سات، سات (7، 7) حصے دئیے جائیں۔

حوالہ جات
القرآن الکریم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ}.  [النساء: 11].
{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ} [النساء: 12].

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

11/جمادی الآخرۃ /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب