021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مالِ میراث میں زکوۃ کا حکم
75391زکوة کابیانان چیزوں کا بیان جن میں زکوة لازم ہوتی ہے اور جن میں نہیں ہوتی

سوال

ہمارے والد صاحب نے اپنی زندگی میں 94 لاکھ کی انویسٹمنٹ کی تھی، جس میں سے دو ماہ کا خرچہ 80 ہزار روپے والد صاحب نے خود اپنی زندگی میں لیا تھا۔ پھر والد صاحب کی وفات کے بعد اس انویسٹمنٹ سے مزید پانچ (5) لاکھ ساٹھ (60) ہزار کا خرچہ ہوا جو کہ دو بیٹوں، ایک بیٹی اور بیوہ کے پاس آتا رہا اور استعمال ہوتا رہا۔ ان کے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی جوکہ شادی شدہ ہیں، اس ماہانہ خرچہ میں شریک نہیں ہوئے۔

سوال یہ ہے کہ اس خرچہ میں زکوۃ کا کیا حکم ہے؟ کل انویسٹمنٹ 94 لاکھ روپے ہے، جس کا نفع 22 لاکھ روپے بنا ہے۔ اس 22 لاکھ میں سے ابھی 14 لاکھ روپے بچے ہوئے ہیں، اس میں زکوۃ کس حساب سے واجب ہوگی؟ نیز زکوۃ کا مدار کل انویسٹمنٹ پر ہوگا یا نفع پر؟ اور زکوۃ کتنی بنے گی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مالِ میراث، دینِ ضعیف ہے، اور دینِ ضعیف پر قبضہ سے پہلے زکوۃ واجب نہیں ہوتی، قبضہ کے بعد زکوۃ کی دیگر شرائط پائی جانے کی صورت میں زکوۃ واجب ہوتی ہے، قبضہ عام ہے، چاہے وارث خود حقیقۃً یا حکماً قبضہ کرے یا اس کی طرف سے کوئی نیابۃً قبضہ کرے۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں اگر والد صاحب کی وفات کے بعد تمام ورثا نے اپنی رضامندی سے مذکورہ رقم کو کاروبار میں لگا رہنے دیا تھا تو یہ ان کی طرف سے قبضہ شمار ہوگا، اور ہر ایک پر اپنی ملکیت کے مطابق زکوۃ لازم ہوگی، زکوۃ اصل انویسٹمنٹ اور نفع دونوں پر واجب ہوگی۔  وجوبِ زکوۃ کی تفصیل یہ ہے کہ ان میں سے جو ورثا پہلے سے صاحبِ نصاب ہوں، ان کا حصہ ان کے بقیہ اموالِ زکوۃ کے ساتھ ملایا جائے گا اور جب ان کی زکوۃ کی تاریخ آئے گی تو اس تاریخ کو اس مالِ میراث سمیت ملکیت میں موجود تمام اموالِ زکوۃ کی زکوۃ ادا کریں گے۔ اور جو ورثا پہلے سے صاحبِ نصاب نہ ہوں، بلکہ ترکہ میں حصہ ملنے کے نتیجے میں صاحبِ نصاب بنے ہوں، ان کی زکوۃ کا سال مالِ میراث پر قبضہ کے دن سے شروع ہوگا، اور سال پورا ہونے پر دیگر شرائط پائی جانے کی صورت میں زکوۃ کی ادائیگی لازم ہوگی۔

جہاں تک بعض ورثا کی خرچ کردہ رقم کا تعلق ہے تو اس کے جواب سے پہلے دو اصول سمجھنے چاہئیں۔ ایک یہ کہ زکوۃ کے وجوب اور ادائیگی کے وقت قرض کو نصاب سے منہا کیا جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ زکوۃ اس مال پر لازم ہوتی ہے جو سال پورا ہونے کی تاریخ کو موجود ہو، جو مال سال کے درمیان میں خرچ ہو، اس کی زکوۃ لازم نہیں ہوتی۔  

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں خرچ کی گئی رقم میں جتنا حصہ اس بھائی اور بہن کا بنتا تھا جو خرچ میں شریک نہیں تھے، اس کی زکوۃ خرچ کرنے والے ورثا پر لازم نہیں ہے؛ کیونکہ وہ ان کے ذمے دین ہے جسے ان کے نصاب سے منہا کیا جائے گا۔ اسی طرح انہوں نے اپنے حصے کی جو رقم سال کے دوران خرچ کی ہے، اس کی زکوۃ بھی ان پر لازم نہیں۔ البتہ اگر زکوۃ کا سال پورا ہونے والے دن ان کے پاس اپنے حصے کی کچھ رقم تھی جو انہوں نے بعد میں خرچ کی تو اس کی زکوۃ ان پر لازم ہوگی۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع (2/ 10):
وأما الدين الضعيف فهو الذي وجب له بدلا عن شيء سواء وجب له بغير صنعه كالميراث أو بصنعه كالوصية، أو وجب بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن القصاص وبدل الكتابة. ولا زكاة فيه ما لم يقبض كله ويحول عليه الحول بعد القبض.
الفتاوى الهندية (1/ 175):
وأما سائر الديون المقر بها فهي على ثلاث مراتب عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى ضعيف وهو كل دين ملكه بغير فعله لا بدلا عن شيء نحو الميراث أو بفعله لا بدلا عن شيء كالوصية أو بفعله بدلا عما ليس بمال كالمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية وبدل الكتابة لا زكاة فيه عنده حتى يقبض نصابا ويحول عليه الحول.
النتف في الفتاوى (1/ 170):
وأما الضعيف فهو مال غير بدل عن مال، مثل مهر المرأة والصلح من دم العمد والسعاية والميراث والوصية ونحوها، فهذا ليس عليه زكاة ما مضى، فاذا خرج منه ما يكون نصابا ثم حال عليه الحول فعليه الزكاة.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

11/جمادی الآخرۃ /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب