021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عقد نکاح میں لگائی گئیں مختلف شرائط کا حکم
75339نکاح کا بیاننکاح صحیح اور فاسد کا بیان

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

  کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ‌:

 ایک نکاح میں لڑکی والے لڑکی کے حق مہر میں 2.5 مرلہ زمین اور 2 تولہ سونا لکھواتے ہیں ۔ ساتھ ہی میں  لڑکی والے نکاح پیپر پر یہ‌ شرط بھی لکھواتے ہیں کہ اگر لڑکے نے طلاق دی تو وہ حق مہر (2.5 مرلہ زمین اور 2 تولہ سونا ) لڑکی سے نہیں لے سکے گا اور دس لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرے گا ۔اگر لڑکی والوں نے جائز یا ناجائز صورت میں خلع کا مطالبہ کیا تو وہ حق مہر ( 2.5 مرلہ زمین اور 2 تولہ سونا) واپس کردیں گے ۔‌ تو موجودہ دور میں شریعت اور عدالتی قوانین و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوۓ درج ذیل‌سوالات کے جوابات درکار ہیں :

[1] لڑکے والوں کی یہ شرط کہ :[ اگر لڑکی والوں نے جائز یا ناجائز صورت میں خلع کا مطالبہ کیا تو حق مہر (2.5 مرلہ زمین اور 2 تولہ سونا) واپس کردیں گے[ تو کیا لڑکے والوں کی طرف سے یہ شرط شریعت کے موافق ہے یا مخالف حق مہر کی واپسی کرنے کی صورت میں؟

[2] اگر لڑکی والے جائز صورت میں خلع کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ لڑکے والوں کو حق مہر واپسی کریں گے یا نہیں؟؟

[3] اگر لڑکی والے ناجائز صورت میں خلع کا مطالبہ کرتے ہیں تو وہ لڑکے والوں کو حق مہر واپسی کرینگے یا نہیں  ؟؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نکاح میں یہ شرط لگانا کہ اگر لڑکے نے طلاق دی تو وہ  " دس لاکھ روپے جرمانہ ادا کرے گا "، یہ شرط فاسد ہے،اور شرط فاسد کا حکم نکاح کے باب میں یہ ہے کہ نکاح اگر شریعت کی بیان کردہ شرائط کے مطابق کیا گیا ہے تو نکاح درست ہوجائے گا البتہ شرط فاسد لغو قرار دی جائے گی۔

خلع کے حوالے سے شریعت کی تعلیمات یہ ہیں کہ عورت کے لیے اپنے شوہر سے بغیر کسی معقول وجہ کے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنا گناہ ہے،اس حوالے سے احادیث مبارکہ میں بڑی سخت وعید آئی ہے۔ایک حدیث میں جنت کی خوشبو کو ایسی عورت کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے،ایک دوسری حدیث میں ایسی عورت کو نفاق والی قرار دیا گیا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ خلع ایک مالی معاملہ ہےلہٰذا اگر جانبین کی رضامندی سے  خلع ہو تو جو  عوض طے کیا جائے گا وہ بیوی کی طرف سےشوہر کو ادا کرنا ضروری ہوگا۔

۱) اس تفصیل کے بعد  سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر نکاح میں یہ شرط لگائی گئی تھی کہ" اگر لڑکی والوں نے جائز یا ناجائز صورت میں خلع کا مطالبہ کیا تو حق مہر (2.5 مرلہ زمین اور 2 تولہ سونا) واپس کردیں گے" تو خلع کی صورت میں اس شرط کا اعتبار کیا جائے گا اور اس کے مطابق اگر لڑکی والے مہر وصول کرچکے ہیں تو واپس کریں گے۔البتہ دیانۃً چونکہ شوہر کے لیے صرف اسی صورت میں مہر معاف کروانا یا عوض لینا جائز ہے جبکہ قصور عورت کی طرف سے ہو اس لیے اس شرط میں ناجائز کے ساتھ جائز صورت کا ذکر شرعاً درست نہیں۔

۲،۳) اگر عورت کسی معقول شرعی وجہ کے خلع کا مطالبہ کرے یا بغیر کسی معقول شرعی وجہ کے خلع کا مطالبہ کرے دونوں صورتوں میں اگر شوہر نے خلع دے دی تو خلع واقع ہوجائے گی ،ا لبتہ دوسری صورت میں عورت گناہگار ہوگی۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 53)
(ولكن لا يبطل) النكاح (بالشرط الفاسد و) إنما (يبطل الشرط دونه) يعني لو عقد مع شرط فاسد لم يبطل النكاح بل الشرط.
سنن أبي داود للسجستاني (2/ 235)
عن ثوبان قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « أيما امرأة سألت زوجها طلاقا فى غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة ».
سنن النسائي الكبرى (3/ 368)
 عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم أنه قال المنتزعات والمختلعات هن المنافقات.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 441)
(ولا بأس به عند الحاجة) للشقاق بعدم الوفاق (بما يصلح للمهر).

محمد حمزہ سلیمان

دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی

۱۳/جمادی الثانی۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب