021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سودی بینک سے ملنے والا نفع فقراء پر صدقہ کرنے کا حکم
78991جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیا سودی بینک کے سیونگ سے حاصل ہونے والے نفع کو غرباء و مساکین پر صدقہ کرنا جائز ہے؟ کیونکہ کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھے گئے پیسوں کو بینک استعمال کرکے نفع کماتا ہے تو کیوں نہ ہم بینک سے نفع لے کر فقراء کی ضرورت پوری کریں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

   قرآن وسنت میں سود دینے اور لینے سے متعلق بہت شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں، یہاں تک کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے سودی کاروبار کرنے والوں سے اعلان جنگ فرمایا ہے، اسی طرح حدیثِ پاک میں سود دینے والے، سود  لینے والے، سودی معاملے کو لکھنے والے اور سودی معاملے پر گواہ بننے والے سب پر لعنت وارد ہوئی ہے۔ 

سودی بینک کے سیونگ اکاؤنٹ میں اس نیت سے رقم رکھوانا کہ حاصل شدہ سود غریبوں میں تقسیم کروں گا، ہرگز جائز نہیں، کیونکہ اس میں سودی معاہدہ کرنے اور سود لینے کا گناہ بہرحال ہو گا، نیز اللہ کے راستے میں ثواب کے حصول کی نیت سے حرام مال صدقہ کرنا بھی بہت بڑا گناہ ہے، البتہ اگر کوئی شخص حاصل شدہ سود بلانیتِ ثواب اپنی ملکیت سے حرام مال نکالنے کی غرض سے فقراء کو دے تو اس کی اجازت ہے۔

جہاں تک کرنٹ اکاؤنٹ کی رقم سے بینک والوں کے نفع اٹھانے کا تعلق ہے تو اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی رقم سودی بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ کی بجائے غیر سودی بینک کے اکاؤنٹ میں رکھوائیں، تاکہ سودی بینک کے ناجائز کاموں میں یہ رقم استعمال کرنے میں سبب بننا لازم نہ آئے، کیونکہ شریعت غیرشرعی کام میں سبب بننے سے بھی منع کرتی ہے اور ایسی صورت میں کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے والا شخص سودی کام کا سبب بننے کی وجہ سے گناہ گار بھی ہو گا،  البتہ اگر کوئی مجبوری ہو، مثلا اس کے علاقے میں کوئی غیرسودی بینک موجود نہ ہو اور یہ شخص اپنی رقوم کی حفاظت کے لیے بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے پر مجبور ہو تو ایسی مجبوری صورت میں سودی بینک میں صرف کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی گنجائش ہے، ورنہ نہیں۔

حوالہ جات
القرآن الكريم: [المائدة: 2]:
{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ } [المائدة: 2]
القرآن الكريم: (278،279):
{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (278) فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (279) وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ}
مسند أحمد ت شاكر (4/ 43، رقم الحديث:3809) دار الحديث – القاهرة:
حدثنا حَجَّاج أنبأنا شريك عن سماك عن عبد الرحمن ابن عبد الله بن مسعود عن أبيه عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قالَ: "لعن الله اكل الربا، وموكله، وشاهديه، وكاتبه"
 
 

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

23/جمادى الاخرى 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب