021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پلاٹ کی جوانب اربعہ کی تعیین سےپہلےاس کی فائل فروخت کرنا
75344خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیافرماتےہیں مفتیان کرام اس مسئلےکےبارےمیں کہ مسمیٰ اجمل مسعودنےمسمیٰ مطیع اللہ سےدوعدد پلاٹ خریدلیافی پلاٹ کی قیمت چونسٹھ لاکھ روپےمتعین کردی ،مدت مقررہ سےسےکچھ تاخیرپراجمل نےپوری رقم اداکردی اورایگریمنٹ لکھ دیاگیااورمطیع اللہ نےدوعدد فائل اجمل کےحوالہ کردیا۔(واضح رہےکہ ان پلاٹوں کی زمین کامحل وقوع تومعلوم ہےکہ مثلاًپشاورمیں فلاں جگہ پرتین یاپانچ کلومیٹر پرہے،لیکن پلاٹ نمبرمعلوم نہیں ہے،پلاٹ قرعہ اندازی کےبعدمعلوم ہوگا)اجمل نےمطیع اللہ سےکہاکہ اب یہ فائل میرےنام کروادیں،مطیع اللہ ایک سال تک ٹال مٹول کرتارہا،اب مطیع اللہ کہہ رہاہےکہ فائل نام نہیں کرواسکتا،البتہ مارکیٹ ریٹ کےحساب سےپلاٹ کی موجودہ قیمت دیدوں گا۔اب پوچھنا یہ ہےکہ پلاٹ نمبرمعلوم نہ ہونےکی صورت میں اجمل کامطیع اللہ سےخریدناجائزہے؟اورفائل نام نہ کروانے کی صورت میں مطیع اللہ کااجمل کوموجودہ قیمت دیناجائزہے؟

تنقیح:مستفتی اجمل مسعودسےپوچھنےپرمعلوم ہواکہ فائل میں پلاٹ کارقبہ معلوم ہےیعنی فی پلاٹ کارقبہ بیس مرلہ ہےاورزمین کامحل وقوع بھی معلوم ہےلیکن نمبرمعلوم نہیں ہےکہ میرےپلاٹ متعینہ زمین کےکس جانب میں ہے؟یہ تعیین قرعہ اندازی کےبعدہوگی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

خریدوفروخت کےمعاملےمیں شرعاًیہ لازم ہےکہ مبیع(یعنی خریدی جانےوالی چیزجیسےکہ صورت مسئولہ میں زمین ہے)کی ایسی تعیین ہوجس سےبعدمیں خریداراورفروخت کنندہ کےدرمیان کسی قسم کے نزاع (جھگڑےاور اختلاف)کااندیشہ نہ ہو ۔

لہٰذاصورت مسؤلہ میں اجمل کامطیع اللہ سےپلاٹ نمبراوراس کی حدوداربعہ کی تعیین سےپہلےخریدنا عرف اورجھگڑےکاسبب نہ ہونےکی وجہ سےاگرچہ جائزتھا،اس طورپرکہ اجمل مسعود نےمطیع اللہ سےخاص احاطےمیں دوپلاٹ مشاعاً(مشترکہ طورپر)خریدے ہیں، جن کی حدوداربعہ کی تعیین بعدمیں قرعہ اندازی کےبعدہوگی۔

چونکہ پہلی بیع(خریدوفروخت)کامعاملہ تام ہوچکاہے،لہٰذا پلاٹ نمبراورحدوداربعہ کی تعیین سےپہلےمطیع اللہ اوراجمل کےدرمیان دوبارہ موجودہ قیمت پرخریدوفروخت کامعاملہ اس شرط کےساتھ جائزہےکہ اس طرح دوبارہ خریدوفروخت کانہ علاقےمیں عرف ہواورنہ ہی خریداراورفروخت کنندہ کےدرمیان اس طرح (دوبارہ خریدو فروخت)کاپیشگی وعدہ اورشرط ہوبلکہ عین موقع پرفریقین کسی قیمت پرراضی ہوجائیں،اورآپس میں خریدوفروخت کامعاملہ کرلیں(تویہ صورت جائزہے)۔

حوالہ جات
(الدررالمختار وحاشیۃ ابن عابدین4/545و6/53)
(قوله: من دار أو حمام) أشار إلى أنه لا فرق بين ما يحتمل القسمة وما لا يحتملها ح. (قوله: وصححاه إلخ) ذكر في غاية البيان نقلا عن الصدر الشهيد، والإمام العتابي أن قولهما، بجواز البيع إذا كانت الدار مائة ذراع، ويفهم هذا من تعليلها أيضا حيث قالا: لأن عشرة أذرع من مائة ذراع عشر الدار فأشبه عشرة أسهم من مائة سهم، وله أن البيع وقع على قدر معين من الدار لا على شائع؛ لأن الذراع في الأصل اسم لخشبة يذرع بها، واستعير ههنا لما يحله وهو معين لا مشاع؛ لأن المشاع لا يتصور أن يذرع، فإذا أريد به ما يحله، وهو معين لكنه مجهول الموضع بطل العقد درر قلت:ووجه كون الموضع مجهولا أنه لم يبين أنه من مقدم الدار، أو من مؤخرها، وجوانبها تتفاوت قيمة فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى النزاع، فيفسد كبيع بيت من بيوت الدار كذا في الكافي عزمية۔ ۔۔۔والجهالة ليست بمانعة لذاتها بل لكونها مفضية إلى النزاع۔
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق5/315)
(قوله وفسد بيع عشرة أذرع من دار لا أسهم) ، وهذا عند أبي حنيفة، وقالا هو جائز كما لو باع عشرة أسهم من دار ومبنى الخلاف في مؤدى التركيب فعندهما شائع كأنه باع عشر مائة وبيع الشائع جائز اتفاقا وعنده مؤداه قدر معين والجوانب مختلفة الجودة فتقع المنازعة في تعيين مكان العشرة فيفسد البيع فلو اتفقوا على مؤداه لم يختلفوا فهو نظير اختلافهم في نكاح الصابئة.
(فقہ البیوع1/376)
بيع قطعة غير معينة من الأرض: وقد تباع قطعة من الأرض مقدرة بالخطوات أو الأمتار ، ولكن يترك تعيينها للمستقبل وهذا يكون عادة في أرض واسعة تشتريها شركة ، ثم تبيع قطعاتها لعامة الناس تقدر بالخطوات أو الأمتار . فمثلاً : كل قطعة منها بقدر خمسمائة متر ، ولكن لا يتعين محل تلك الخمسمائة عند الشراء ۔۔۔۔وتخرج هذه المسئلة . على  ما ذكره الفقهاء الحنفية من أن من باع عشرة أذرع غير معينة من دار ، فإن هذا البيع فاسد عند . الإمام أبي حنيفة رحمه الله تعالى ، لجهالة القدر المبيع ، فإن جوانب الدار مختلفة الجودة ، فتقع المنازعة في تعيين المبيع . وقال صاحباه : يجوز ذلك على أساس أنه بيع لحصة مشاعة من الدار ، وبيع المشاع جائز ۔۔۔ وعلى هذا ، فإن بيع قطعة غير معينة من جملة القطعات لا يجوز عند الإمام أبي حنيفة رحمه الله تعالى ، ويجوز عند صاحبيه . والظاهر أنه إن كانت جهالة التعيين تفضى إلى المنازعة ، فالأخذ بقول الإمام أبي حنيفة أولى ، وإن لم تكن مفضية إلى المنازعة ، فقول الصاحبين أولى بالأخذ ۔

محمدعمربن حسین احمد

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

9جمادی الثانیۃ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر ولد حسین احمد

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب