021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زمین سے مونگ پھلی نکالنے کے بعد باقی ماندہ مونگ پھلی نصف پر دینا یا بیچنا
75406اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ہمارے تلہ گنگ میں جب زمین سے مونگ پھلی اٹھائی جاتی ہے تو پھر زمین میں کافی مقدار میں مونگ پھلی رہ جاتی ہے۔ ان مونگ پھلیوں کے بارے میں مالکِ زمین کسی سے دو طرح کا معاملہ کرتا ہے:

  1. تم میری زمین سے باقی ماندہ مونگ پھلی جمع کرو، پھر اس کو نصف نصف کریں گے۔  
  2. باقی ماندہ مونگ پھلیوں میں سے جتنی بھی تم جمع کروگے، وہ ساری تمہاری ہوگی۔

ان دونوں صورتوں کا حکم واضح کریں۔ یہ صورت یہاں عام ہے۔ اگر یہ جائز نہیں تو کیا عرف اور عمومِ بلویٰ کی وجہ سے گنجائش ہوسکتی ہے؟ اگر نہیں تو اس کی متبادل جائز صورتیں تحریر فرمادیں۔  سائل نے بتایا کہ باقی شہروں کا معلوم نہیں، لیکن ہمارے ہاں تلہ گنگ میں اس کا عرف ہے۔  

نیز ان دونوں صورتوں میں عشر واجب ہوگا یا نہیں؟ اگر واجب ہوگا تو کس کے ذمہ ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ یہ صورت دو وجوہات کی بنیاد پر جائز نہیں۔ پہلی وجہ اس کا "قفیز الطحان" (کسی ایسی چیز کو اجرت بنانا جو اجیر کے عمل سے وجود میں آئے) کے تحت داخل ہونا، اور دوسری وجہ اجرت کا مجہول ہونا ہے۔ جہاں تک عرف کا تعلق ہے تو "قفیز الطحان" کی وجہ سے پیدا ہونے والا عدمِ جواز اگرچہ عرفِ عام کی صورت میں بالاتفاق، اور عرفِ خاص کی صورت میں صرف مشایخِ بلخ رحمہم اللہ کے نزدیک ختم ہوسکتا ہے؛ لیکن عدمِ جواز کی دوسری وجہ یعنی اجرت کی جہالت عرف کی وجہ سے ختم نہیں ہوسکتی؛ لکونها جهالة فاحشة؛ اس لیے مذکورہ صورت عرف کی بنیاد پر جائز نہیں ہوسکتی۔

البتہ اس کی جائز متبادل صورت یہ ہوسکتی ہے کہ باقی ماندہ مونگ پھلی جمع کرنے والے کی اجرت کو ان مونگ پھلیوں کے ساتھ مقید نہ کیا جائے جو وہ جمع کرے گا، بلکہ اس کے لیے مطلق مونگ پھلیوں کی ایک معین مقدار بطورِ اجرت مقرر کرلیں، مثلا بیس کلو۔ اور جب وہ اپنا کام کرلے تو اسے اتنی مقدار مونگ پھلی دی جائے، اجرت کی ادائیگی کے وقت اگر مالک انہی مونگ پھلیوں سے اجرت ادا کرنا چاہے جو مستاجر نے جمع کی ہوں تو یہ جائز ہوگا۔  

(2)۔۔۔ اگر فصل کا مالک باقی ماندہ مونگ پھلی جمع کرنے والوں سے کچھ نہیں لیتا، بلکہ باقی ماندہ مونگ پھلی انہیں مفت دیتا ہے تو یہ اس کی طرف سے ہدیہ ہے، جس کے جائز ہونے میں کوئی شبہہ نہیں۔ البتہ مونگ پھلی جمع کرنے والا جتنی مونگ پھلی جمع کرکے اپنے قبضہ میں لے گا، اس کا مالک بنے گا۔ جو مونگ پھلی ابھی اس نے جمع نہیں کی ہوگی، اس پر قبضہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کا مالک نہیں بنے گا؛ لہٰذا اگر کھیت کا مالک اسے کسی وقت مونگ پھلی جمع کرنے سے روک دے تو اس کے لیے مزید مونگ پھلی جمع کرنا جائز نہیں رہے گا۔

اوراگر کھیت کا مالک مونگ پھلی، جمع کرنے والے کو مفت نہیں دیتا، بلکہ اسے بیچتا ہے تو پھر چونکہ بیع میں مبیع کی مقدار متعین ہونا ضروری ہے، اور یہاں بیع کے وقت مبیع کی مقدار میں جہالتِ فاحشہ ہے؛ کیونکہ اس صورت میں اصل فصل مالک لے چکا ہوتا ہے، اور جو بقیہ فصل بیچتا ہے، اس کی مقدار میں غرر زیادہ ہے؛ اس لیے اس حالت میں اس کی بیع جائز نہیں ہوگی۔

البتہ اگر اس حالت میں بیع کرنے کے بجائے یہ دونوں وعدۂ بیع کرلیں، یعنی کھیت کا مالک، مونگ پھلی خریدنے والے سے کہے کہ اس کھیت سے جو مونگ پھلی نکلے گی، وہ میں آپ کو بیچوں گا، تو ایسا وعدہ کرنا درست ہے۔ اس طرح وعدۂ بیع کے بعد جب عملا مونگ پھلی زمین سے نکلے تو پھر وہ دونوں جتنی مونگ پھلی بیچنا اور خریدنا چاہیں، اس کی مقدار متعین کر کے بیع کا معاملہ کرلیں۔

یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ وعدۂ بیع کی صورت میں زمین سے مونگ پھلی جمع کرنا، کھیت کے مالک کی ذمہ داری ہوگی، مونگ پھلی خریدنے والے شخص کی نہیں، اگر وہ (مونگ پھلی کی خریداری کا خواہش مند شخص) خود اپنی رضامندی سے مونگ پھلی جمع کرے تو یہ اس کی طرف سے تبرع ہوگا۔ لیکن اگر وہ تبرعًا مونگ پھلی جمع کرنے پر راضی نہ ہو اور کھیت کا مالک، اس سے یہ کام لینا چاہے تو پہلے اس کے ساتھ اجارہ کا معاملہ کرے اور اسے مونگ پھلی جمع کرنے کی متعین اجرت دے۔ اور  جب وہ مونگ پھلی نکال لے تو پھر وہ اسے الگ عقد کے تحت بیچ دے۔ اس صورت میں بیع اور اجارہ دونوں معاملات کا ایک دوسرے سے الگ ہونا ضروری ہے، انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مشروط کرنا  جائز نہیں۔   

(3)۔۔۔ مذکورہ بالا دونوں صورتوں میں باقی ماندہ مونگ پھلیوں کا عشر مالکِ فصل پر واجب ہوگا۔   

حوالہ جات
شرح عقود رسم المفتی (ص 152):
ثم اعلم أن العرف قسمان: عام و خاص، فالعام یثبت به الحکم العام، و یصلح مخصصا للقیاس و الأثر، بخلاف الخاص؛ فإنه یثبت به الحکم الخاص ما لم یخالف القیاس أو الأثر؛ فإنه لا یصلح مخصصاقال فی الذخیرة فی الفصل الثامن من الإجارات فی مسألة ما لو دفع إلی حائك غزلا لینسجه بالثلث: 
"و مشایخ بلخ کنصیر بن یحیی و محمد بن سلمة و غیرهما کانوا یجیزون هذه الإجارة فی الثیاب؛ لتعامل أهل بلادهم فی الثیاب، و التعامل حجة یترك به القیاس و یخص به الأثر. و تجویز هذه الإجارة فی الثیاب للتعامل، بمعنی تخصیص النص الذی ورد فی قفیز الطحان؛ لأن النص ورد فی قفیز الطحان لا فی الحائك، إلا أن الحائك نظیره، فیکون واردا فیه دلالة، فمتی ترکنا العمل بدلالة هذا النص فی الحائك و عملنا بالنص فی قفیز الطحان کان تخصیصا لا ترکا أصلا، و تخصیص النص بالتعامل جائز.
ألا تری أنا جوزنا الاستصناع للتعامل، و الاستصناع بیع ما لیس عنده، و إنه منهی عنه، و تجویز الاستصناع بالتعامل تخصیص منا للنص الذی ورد فی النهی عن بیع ما لیس عند الإنسان، لا ترك للنص أصلا؛ لأنا عملنا بالنص فی غیر الاستصناعقالوا: و هذا بخلاف ما لو تعامل أهل بلدة قفیز الطحان؛ فإنه لا یجوز و لا تکون معاملتهم معتبرة؛ لأنا لو اعتبرنا معاملتهم کان ترکا للنص أصلا، و بالتعامل لا یجوز ترك النص أصلا، و إنما یجوز تخصیصه.
و لکن مشایخنا لم یجوزوا هذا التخصیص؛ لأن ذلك تعامل أهل بلدة واحدة، و تعامل أهل بلدة واحدة لا یخص الأثر؛ لأن تعامل أهل بلدة إن اقتضی أن یجوز التخصیص، فترك التعامل من أهل بلدة أخری یمنع التخصیص، فلا یثبت التخصیص بالشك، بخلاف التعامل فی الاستصناع؛ فإنه وجد فی البلاد کلها". انتهی کلام الذخیرة.
و الحاصل: أن العرف العام لا یعتبر إذا لزم منه ترك المنصوص، و إنما یعتبر إذا لزم منه تخصیص النص، و العرف الخاص لا یعتبر فی الموضعین، و إنما یعتبر فی حق أهله فقط إذا لم یلزم منه ترك النص و لا تخصیصه، و إن خالف ظاهر الروایة.
بحوث فی قضایا فقهیة معاصرة (2/143-142):
اختار مشایخ بلخ جواز الغزل ببعض المنسوج و صور أخری سوی مسألة الطحن، و ذلك علی أساس العرف و التعامل و الحاجة، و قالوا: إن العرف و التعامل مما یترك به القیاس و قد شرح ذلك العلامة ابن عابدین رحمه الله فی "شرح عقود رسم المفتی" ………… الخ 
إن مشایخ بلخ من الحنفیة قد أجازوا الغزل ببعض المنسوج علی أساس التعامل، فإذا حدث هناك تعامل فی غیر قفیز الطحان بحیث جعلت الأجرة مما یحدث بفعل الأجیر، فإنه یجوز عند هم.
الدر المختار (6/ 58-56):
( ولو دفع غزلا لآخر لينسجه له بنصفه ) أي بنصف الغزل ( أو استأجر بغلا ليحمل طعامه ببعضه أو ثورا ليطحن بره ببعض دقيقه ) فسدت في الكل لأنه استأجره بجزء من عمله والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء.  والحيلة أن يفرز الأجر أولا، أو يسمى قفيزا بلا تعيين ثم يعطيه قفيزا منه فيجوز، ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلا لصيرورته شريكا، وما استشكله الزيلعي أجاب عنه المصنف، قال: وصرحوا بأن دلالة النص لا عموم لها، فلا يخصص عنها شيء بالعرف كما زعمه مشايخ بلخ.
رد المحتار (6/ 58):
 مطلب يخص القياس والأثر بالعرف العام دون الخاص: 
  قوله ( كما زعمه مشايخ بلخ ) قال في التبيين: ومشايخ بلخ والنسفي يجيزون حمل الطعام ببعض المحمول ونسج الثوب ببعض المنسوج لتعامل أهل بلادهم بذلك، ومن لم يجوزه قاسه على قفيز الطحان.والقياس يترك بالتعارف. ولئن قلنا إنه ليس بطريق القياس، بل النص يتناوله دلالة، فالنص يخص بالتعارف، ألا ترى أن الاستصناع ترك القياس فيه وخص من القواعد الشرعية بالتعامل. ومشايخنا رحمهم الله لم يجوزوا هذا التخصيص؛ لأن ذلك تعامل أهل بلدة واحدة، وبه لا يخص الأثر، بخلاف الاستصناع؛ فإن التعامل به جرى في كل البلاد، وبمثله يترك القياس ويخص الأثر، آه. وفي العناية: فإن قيل لا نتركه بل يخص عن الدلالة بعض ما في معنى قفيز الطحان بالعرف كما فعل بعض مشايخ بلخ في الثياب لجريان عرفهم بذلك، قلت: الدلالة لا عموم لها حتى تخص، اه، ط.
الفتاوى الهندية (4/ 446):
رجل استأجر رجلا ليحصد له قصبا في أجمة على أن يعطي له خمس حزمات من هذا القصب لا يجوز. ولو قال استأجرتك بهذه الحزمات الخمس لتحصد هذه الأجمة جاز.
فقه البیوع (1/372-371):
الجهالة فی قدر المبیع:
أما معرفة مقدار المبیع، فشرط لصحة البیع إن کان المبیع بمقدار، بأن یقع البیع کیلا، أو وزنا، أو عددا، فیجب أن یعرف مقدار المبیعأما إذا وقع البیع بالإشارة أو بالتعیین، فلا یجب معرفة المقدار.
مثال الإشارة أن یقول البائع: "بعت منك هذا القطیع من الغنم، أو هذه الصبرة من الطعام بکذا" و لا یعرف عدد الغنم فی الأول، و کیل الطعام أو وزنه فی الثانی، جاز البیع، و هو ما یسمی "البیع مجازفة"، و یجوز بشرط أن لا یکون مبادلة بین الربویات؛ لأن المجازفة فیها لا تجوز.
و مثال التعیین أن یقول البائع: "بعت منك أرضی الفلانیة"، و لا یعرف المشتری ذرعها، جاز البیع. جاء فی الفتاویٰ البزازیة: "اشتری أرضا، و ذکر حدودها، لا ذرعها طولا و عرضا جاز……..…. و إن لم یذکر الحدود و لم یعرفه المشتری جاز البیع إذا لم یقع بینهما تجاحد.
و الظاهر أنه فی ما إذا کانت الأرض معروفة بأنها للبائع فی منطقة معروفة، و إلا فالجهالة فاحشة تمنع صحة البیع. و قد ذکر ابن عابدین رحمه الله تعالیٰ: أن الجهالة الفاحشة فی قدر المبیع مفسدة. فلو باعه جمیع ما فی هذه القربة أو هذه الدار، و المشتری لا یعلم ما فیها، لا یصح لفحش الجهالة. أما لو باعه جمیع ما فی هذا البیت، أو الصندوق، أو الجوالق، فإنه یصح؛ لأن الجهالة یسیرة.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

13/جمادی الآخرۃ /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب