021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تقسیم میراث کی ایک صورت کا حکم (ایک بہن آٹھ بھتیجوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں میں تقسیم وراثت )
75473میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

سوال:میری پھوپھی کا انتقال ہوا ہے جو کہ تنہا تھیں۔ پھوپھی کی صرف ایک بہن حیات ہیں جن کے چار بچے ہیں، تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ۔ پھوپھی کے والدین کا ان کی زندگی میں انتقال ہو چکا تھا ، پھوپھی کے تین بھائیوں اور ایک بہن کا پھوپھی کی زندگی میں ہی انتقال ہو چکا تھا۔ بڑے بھائی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے ، منجھلے بھائی  کے دو بیٹے اور پانچ  بیٹیاں ہیں، چھوٹے بھائی کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، بڑی بہن کی ایک اکلوتی بیٹی ہے ۔

نوٹ: یہ چند نام ہیں جو پھوپھی نے وصیت میں لکھے ہیں، وصیت آگے منسلک کردی گئی ہے۔

پھوپھی کا نام تسنیم آراء عباسی تھا ۔  

کوثر: پھوپھی کی بہن ہیں جو زندہ ہیں۔

سارم: پھوپھی کے بھتیجے کا بیٹا ہے۔

مونا: پھوپھی کی بھتیجی ہے۔

لائبہ: پھوپھی کے بھتیجے کی بیٹی ہے۔

شوانہ:  پھوپھی کی بھانجی ہے۔

رجا عباسی: پھوپھی کے بھتیجے کی بیٹی ہے۔

وصیت

میں تسنیم عباسی بنت عبد الباری عباسی وصیت کے طور پر کچھ ضروری باتیں عرض کرنا چاہتی ہوں ۔  امید ہے اس پر پوری ایمانداری سے عمل کریں گے۔ سب سے پہلے تو میں آپ سے اپنے کردہ و ناکردہ غلطیوں اور گناہوں کی معافی چاہتی ہوں، امید ہے ضرور معاف کردی جاؤں گی۔

مجھے نہیں معلوم  میرے بعد میرے  اکاؤنٹ  میں کتنی رقم ہو گی۔ کچھ دنوں پہلے    200,000 روپے اپنے روزے  اور نماز کی مد میں فدیہ دے چکی ہوں ۔ میری تدفین میں جو کچھ خرچ ہو  پہلے وہ لیا جائے،  اس کے بعد 25000  روپے روزے اور نماز کا فدیہ دے دیں۔  اس کے بعد بھی اگر کچھ رہتا ہے تو امید ہے الله پاک معاف فرمائیں گے۔ اب جو رقم بچے اس کا %50  کوثر کو دیا جائے کیونکہ اصل حقدار وہی ہے۔

 اب جو بھی رقم رہتی ہے اس کا %50 سارم عباسی کو دیا جائے، اس کے بعد بقیہ بچی ہوئی رقم کو آدھا  آدھا     مونا اور لائبہ میں تقسیم کیا جائے۔ میرے پاس  ماریہ کی دی ہوئی دو انگوٹھیاں ہیں، سفید رنگ میں  گرین پتھر کے ساتھ ہے  جس میں سے ایک شوانہ کو اور دوسری رجا عباسی کو دے دینا۔ کچھ بغیر سلے کپڑے ہوں گے انہیں تم لوگ رکھ لینا یا  اس میں سے کسی ضرورت مند کو دے دینا۔

امید ہے بغیر کسی رد و کد کے عمل ہو گا۔ آخر میں میری مغفرت کی دعا ضرور کرنا،  خدا سے دعا ہے کہ وہ مجھے میری تمام تر غلطیوں اور کوتاہیوں کے ضرور معاف کر دے گا۔ میری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کبھی کسی کو میری ذات سے تکلیف نہ  پہنچے، پھر بھی سب سے معافی مانگ رہی ہوں، بہت  شکریہ ۔

سوالات

۱۔ پھوپھی کے بینک اکاؤنٹ کی رقم کس طرح تقسیم ہو گی؟

۲۔پھوپھی کا روز مرہ کا سامان کپڑے، فرنیچر چھوٹی موٹی چیزوں کے لیے کیا حکم ہے؟

۳۔ پھوپھی نے ایک قیمتی تحفہ (سونے کا زیور) حال  ہی میں کسی کو دینے کیلئے خرید تھا لیکن ابھی اس کے حوالے نہیں کیا تھا ، اس تحفے کا کیا حکم ہے؟

تنقیح: میت کا کل ترکہ ایک لاکھ ستر ہزار روپے بنتا ہے جس میں دو  انگوٹھیوں کی مالیت شامل نہیں کیونکہ وہ معلوم نہیں کہ کہاں ہیں اور  کیسی ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ میت کی وفات کے وقت اس کی مملوکہ تمام اشیاء، خواہ  نقدی ہو، بینک اکاؤنٹ میں پیسے ہوں، اس کے ذاتی استعمال کے کپڑے ہوں، کسی اور کے ذمہ اس کا قرض ہو یا  روز مرہ کی ذاتی استعمال کی اشیاء، سب اس کے ترکہ میں شمار ہوتی ہیں، جو  کہ وفات  کے بعد حسبِ حکمِ شریعت ورثاء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔  

(۱،۲،۳)چنانچہ صورت مسئولہ میں وہ تمام چیزیں جو مرحومہ  کی وفات کے وقت ان کی  ملکیت میں تھیں، اور وہ ان چیزوں میں مالکانہ تصرف کی اہل بھی تھیں ، جیسے نقدی، بینک اکاؤنٹ  میں موجود رقم  ،  گھریلو استعمال کے کپڑے، فرنیچر  و  دیگر  چیزیں اور وہ سونے کا زیور بھی جو  ہبہ کی غرض سے خریدا گیا تھا لیکن وفات تک اسے تحفہ کی صورت میں کسی کو دیا نہیں گیا ، سب ان کے ترکہ میں شامل ہوں گی۔

چونکہ میت کی تجہیز و تکفین کی جاچکی ہے اور ان کے ذمہ کسی کا قرض  بھی نہیں ہے،  لہذا اب کل ترکہ میں سے  ایک تہائی ترکہ جس کی مالیت 56,666بنتی ہے اس کو الگ کر لیا جائے گا۔ سب سے پہلے  اس تہائی ترکہ  میں سے 25000روپے ان کی قضاء نمازوں اور  روزوں کے فدیہ کے طور پر ادا کئے جائیں گے۔ اس کے بعد بچے ہوئے 31,666 روپے  میں سے 50فیصد  یعنی 15,833روپے سارم عباسی کو اور باقی 50 فیصد کو آدھا آدھا  کر کے مونا اور لائبہ میں سے ہر ایک کو 7,916روپے    دیئے جائیں گے ۔ 

جہاں تک دو انگوٹھیوں کی بات ہے تو جب ورثاء کو وہ  انگوٹھیاں مل جائیں تو ورثاء  ان کی قیمت  لگا کر اس  میں سے ایک تہائی  شوانہ اور رجا عباسی کے درمیان برابری سے تقسیم کردیں اور باقی دو تہائی مال ورثاء کے درمیان نیچے دئیے گئے تناسب سے تقسیم کردیں اور اگر چاہیں  تو  باہمی رضامندی سے   انگوٹھیاں ایک شوانہ کو اور دوسری رجا عباسی کو دے دیں۔

یاد رہے کہ درج بالا  افراد  چونکہ مرحومہ کے  شرعی ورثاء میں سے نہیں ہیں    اسی لئے ان کے متعلق وصیت کا اجراء  کل ترکہ کے صرف ایک تہائی مال  میں سے ہو گا۔ وصیت کے اجراء کے بعد بقیہ ترکہ جس کی مقدار 113,334روپے بنتی ہے  کوکل16 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں سے 8حصے مرحومہ کی بہن کوثر کو  دیئے جائیں گے  اور باقی 8حصے مرحومہ کے آٹھ  بھتیجوں میں برابری کے اعتبار سے تقسیم  کئے جائیں گے۔ ان کے علاوہ مرحومہ کے بھانجے، بھتیجیاں اور بھتیجوں کے  بچوں کو میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا۔   مرحومہ کے شرعی ورثاء میں ان کا ترکہ  درج ذیل  طریقے سے تقسیم کی جائے گا ۔

نقدی حصص

( ترکہ 113,334)

فیصدی حصص

 (کل  %100)

عددی حصص (کل16  حصے)

ورثاء

نمبر شمار

 56,666 روپے

50%

8

مرحومہ کی بہن (کوثر )

1

7,083                   روپے

6.25%

1

بڑے بھائی کا پہلا بیٹا (بھتیجا)

2

7,083                   روپے

6.25%

1

بڑے بھائی کا دوسرا  بیٹا (بھتیجا)

3

7,083                   روپے

6.25%

1

منجھلے بھائی کا پہلا بیٹا (بھتیجا)

4

7,083                   روپے

6.25%

1

منجھلے بھائی کا دوسرا  بیٹا (بھتیجا)

5

7,083                   روپے

6.25%

1

چھوٹے  بھائی کا پہلا بیٹا (بھتیجا)

6

7,083                   روپے

6.25%

1

چھوٹے  بھائی کا  دوسرا بیٹا (بھتیجا)

7

7,083                   روپے

6.25%

1

چھوٹے  بھائی کا  تیسرا  بیٹا (بھتیجا)

8

7,083                   روپے

6.25%

1

چھوٹے  بھائی کا چوتھا بیٹا (بھتیجا)

9

حوالہ جات
الدر المختار شرح تنوير الأبصار (ص761):
(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق الغير بعينها كالرهن والعبد والجاني) والمأذون المديون والمبيع المحبوس بالثمن والدار المستأجرة، وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير) ككفن السنة أو قدر ما كان يلبسه في حياته، ولو هلك كفنه: فلو قبل تفسخه كفن مرة بعد أخرى وكله من كل ماله (ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه، وإلا فسيان كما بسطه السيد۔ وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي، وإلا لا (ثم) تقدم (وصيته) ولو مطلقة على الصحيح خلافا لما اختاره في الاختيار (من ثلث ما بقي) بعد تجهيزه وديونه۔
الدر المختار  مع حاشيته  رد المحتار ط الحلبي (2/ 72):
(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).
(قوله وعليه صلوات فائتة إلخ) أي بأن كان يقدر على أدائها ولو بالإيماء، فيلزمه الإيصاء بها وإلا فلا يلزمه وإن قلت، بأن كانت دون ست صلوات، لقوله - عليه الصلاة والسلام - «فإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه» وكذا حكم الصوم في رمضان إن أفطر فيه المسافر والمريض وماتا قبل الإقامة والصحة، وتمامه في الإمداد. مطلب في إسقاط الصلاة عن الميت.
(قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد ثم اعلم أنه ‌إذا ‌أوصى ‌بفدية ‌الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه۔ وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى۔
وفيه أيضاً :(6/ 783)
أن ابن الأخ لا يعصب أخته كالعم لا يعصب أخته وابن العم لا يعصب أخته وابن المعتق لا يعصب أخته بل المال للذكر دون الأنثى لأنها من ذوي الأرحام قال في الرحبية: وليس ابن الأخ بالمعصب من مثله أو فوقه في النسب بخلاف ابن الابن وإن سفل فإنه يعصب من مثله أو فوقه ممن لم تكن ذات سهم۔
وفيه أيضاً (5/ 690):
(قوله: بالقبض) فيشترط القبض قبل الموت، ولو كانت في مرض الموت للأجنبي كما سبق في كتاب الوقف كذا في الهامش (قوله: بالقبض الكامل) وكل الموهوب له رجلين بقبض الدار فقبضاها جاز خانية۔

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

۱۳،  جمادی الثانی  ۱۴۴۳ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب