021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد میں اجرت پر بچوں کو تعلیمِ قرآن دینے کا حکم
75414نماز کا بیانمسجدکے احکام و آداب

سوال

ہمارا محلہ انتہائی گنجان آبادی پر مشتمل ہے، جبکہ پورے محلے میں باقاعدہ کوئی مدرسہ نہیں ہے۔ محلے کی مسجد کا رقبہ چھوٹا ہونے اور نمازیوں کی تعداد زیادہ ہونے کے پیشِ نظر مسجد کو ۳ منزلہ اونچا کر دیا گیا ہے۔

مسجد کی بالائی منزلوں پر مدرسہ کا نظام چلتا ہے، جس میں تقریباً ۱۰۰ سے زائد بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بچوں کو داخلہ دیتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ چھوٹے عمر کے نہ ہوں، باشعور ہوں اور مسجد کے آداب کا خیال رکھ سکیں۔

مدرسہ کا معیار عمدہ اور مثالی بنانے کے پیشِ نظر درسگاہوں میں طلبہ کی تعداد کم رکھی جاتی ہے، جبکہ تمام اساتذہ کو بروقت معقول مشاہرہ دیا جاتا ہے (عموماً اساتذہ کا مشاہرہ ۲۰ سے ۲۵ کے درمیان ہے، اور کچھ کا اس سے بھی زیادہ)۔ نیز صفائی ستھرائی اور دیگر نظم و ضبط کو بہترین بنانے کے لیے غیر تدریسی عملہ بھی ناگزیر ہے، جن کی تعداد ۳ ہے۔

اہلِ محلّہ کا مدرسے کے ساتھ تعاون تو درکنار، مسجد کے ساتھ بھی تعاون ادھورا ہے۔ چندے سے مسجد کے مکمل اخراجات پورے نہیں ہو پاتے۔ ایسی صورت میں مدرسے کے بچوں سے ان کے حسبِ استطاعت فیس وصول کی جاتی ہے۔ ملحوظ رہے کہ اگر بچوں سے فیس وصول نہ کی جائے تو اساتذہ جنہیں تنخواہوں پر رکھا گیا ہے، ان کے لیے تنخواہ کا بندوبست مشکل ہو جائے گا۔  لہٰذا یا تو مدرسہ مکمل بند ہو جائے گا یا اس کا معیار بہت غیر معیاری ہو جائے گا۔

یہ بھی واضح رہے کہ مسجد سے متصل تھوڑی جگہ ہے، اُس پر مدرسے ہی کی نیت سے عمارت تعمیر کی گئی تھی، مگر بعد میں کمیٹی والوں نے اُسے بھی مسجد میں شامل کر لیا ہے۔ اب مسجد کی حدود سے الگ صرف ایک کمرہ اور مزید کچھ جگہ ہے۔

نیز یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ مدرسہ کے داخلہ فارم پر یہ بات واضح طور پر لکھی گئی ہے کہ مدرسے کی ماہانہ فیس مثلاً ۳۰۰ روپے ہے، مگر یہ فیس یا چندہ نہیں، بلکہ مدرسے کے ساتھ تعاون کی ایک شکل ہے۔ اگر آپ مکمل فیس نہیں دے سکتے تو جتنی بھی فیس دے سکتے ہیں، وہ لکھوا دیں۔ نیز اگر کچھ نہیں دے سکتے تو زکوٰۃ کے فارم پر دستخط کر دیں۔

مذکورہ بالا تفصیل کے بعد درجِ ذیل سوالات کا جواب مطلوب ہے:

  1. کیا اس صورتِ حال میں مسجد میں مدرسہ لگانا جائز ہے؟
  2. کیا مسجد میں اساتذہ کا تنخواہ وصول کرنا جائز ہے؟
  3. کیا طلبہ سے فیس وصول کرنا جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1۔2)۔۔۔ مذکورہ سوال کے جواب سے پہلے بطورِ تمہید یہ بات ذکر کرنا مناسب ہے کہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے عام حالات میں مسجد میں اجرت پر تعلیمِ قرآن کو مکروہ قرار دیا ہے؛ کیونکہ مساجد کمائی کے لیے نہیں، خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہیں۔ بلکہ بعض فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اجرت کے بغیر بھی بلا ضرورت مسجد میں بچوں کا مستقل مکتب قائم کرنے کو مکروہ فرمایا ہے؛ کیونکہ اس میں مسجد کے آداب کی خلاف ورزی کا غالب امکان ہوتا ہے۔ اس لیے مساجد کے ساتھ مکاتبِ قرآنیہ کے قیام کے سلسلے میں سب سے بہتر صورت یہ ہے کہ حدودِ مسجد سے باہر ( مسجد سے متصل) بچوں کو تعلیمِ قرآن دینے کے لیے کسی کمرے یا ہال وغیرہ کا انتظام کیا جائے، تاکہ مذکورہ بالا خرابیاں بھی لازم نہ آئیں اور مساجد کے ساتھ بچوں کی انسیت اور ربط بھی پیدا ہو۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر صورتِ مسئولہ میں واقعتا مسجد سے متصل باہر، مدرسہ اور مکتب کی کوئی ترتیب نہیں بن سکتی تو اجرت لے کر مسجد میں قرآن کی تعلیم دینے کی گنجائش ہے، بالخصوص اِس دور میں۔ کیونکہ موجودہ زمانے میں نئی نسل کو دین اور قرآن سے جوڑنے کا ایک اہم ذریعہ مکاتبِ قرآنیہ کا قیام ہے۔ لہٰذا جس طرح فقہائے کرام نے ضرورت کی وجہ سے قرآنِ کریم کی تعلیم اور امامت پر اجرت کو جائز قرار دیا تھا، اسی طرح ہمارے زمانے میں جہاں کوئی اور انتظام ناممکن یا مشکل ہو، وہاں اجرت لے کر مسجد میں تعلیمِ قرآن کی بھی گنجائش ہوگی۔ البتہ مسجد کے آداب کا خیال رکھنا ضروری ہوگا کہ مسجد میں شور وغل نہ ہو، نہ ہی اتنے چھوٹے بچوں کو مسجد لایا جائے جن کی وجہ سے مسجد ناپاک ہونے کا اندیشہ ہو۔ اسی طرح بہتر یہ ہے کہ اعتکاف کی نیت کر کے تعلیم کے لیے مسجد میں بیٹھیں۔ البتہ اگر کسی وقت مسجد سے متصل باہر ، متبادل جگہ کا انتظام ممکن ہو تو پھر مدرسہ، مسجد سے باہر اس متبادل جگہ پر منتقل کیا جائے۔ واللہ اعلم

 (باستفادۃٍ من فتاویٰ دار العلوم دیوبند:14/205، و کتاب الفتاوی:407/5، و  232/4)

(3)۔۔۔ اساتذہ کی تنخواہوں اور مدرسے کی دیگر ضروریات کے لیے طلبا سے مناسب اور معقول فیس وصول کرنا جائز ہے۔

حوالہ جات
فتح القدير(1/ 369، قبیل باب صلاة الوتر) ط، مکتبه حقانیة:
ولا يجوز أن تعمل فيه الصنائع لأنه مخلص لله فلا يكون محلا لغير العبادة غير أنهم قالوا في الخياط إذا جلس فيه لمصلحته من دفع الصبيان وصيانة المسجد لا بأس به للضرورة ولا يدق الثوب عند طيه دقا عنيفا، والذي يكتب إذا كان بأجر يكره وبغير أجر لا يكره، هذا إذا كتب العلم والقرآن؛ لأنه في عبادة. أما هؤلاء المكتبون الذين تجتمع عندهم الصبيان واللغط فلا (و لو) لو لم يكن لغط؛ لأنهم في صناعة لا عبادة؛ إذ هم يقصدون الإجارة ليس هو لله بل للإرتزاق ومعلم الصبيان القرآن كالكاتب إن كان لأجر لا، وحسبةً لا بأس به. و منهم من فصل هذا إن كان لضرورة الحر وغيره لا يكره وإلا فيكره، وسكت عن كونه بأجر أو غيره، وينبغي حمله على ما إذا كان حسبة، فأما إن كان بأجر فلا شك في الكراهة، وعلى هذا فإذا كان حسبة ولا ضرورة يكره؛ لأن نفس التعليم ومراجعة الأطفال لا تخلو عما يكره في المسجد.
المحيط البرهاني (5/ 151):
الخياط إذا كان يخيط الثوب في المسجد يكره ذلك؛ لما روي عن عثمان رضي الله عنه أنه رأى خياطاً يخيط في المسجد، فأمر به فأخرج من المسجد. وكذا الوراق إذا كان يكتب في المسجد بأجر يكره. فعلى هذا الفقهاء إذا كانوا يكتبون الفقه بالأجر في المسجد يكره، وإن كان بغير أجر لا؛ لأنه إذا كان بأجر، فهو عمل العبد، والمسجد ما بني لذلك؛ لأنه بيت الله تعالى، هذه الجملة من «فتاوى أبي الليث».
وفي كراهية «العيون»: معلم جلس في المسجد، أو وراق كتب في المسجد، فإن كان المعلم يعلم بأجر، و الوراق یکتب لغیره بأجر یکره، إلا أن تقع لهما الضرورة.
البحر الرائق (2/ 38):
والذي يكتب إن كان بأجر يكره وإن كان بغير أجر لا يكره. قال في فتح القدير: هذا إذا كتب القرآن والعلم لأنه في عبادة، أما هؤلاء المكتبون الذين يجتمع عندهم الصبيان واللغط فلا ولو لم يكن لغط؛ لأنهم في صناعة لا عبادة؛ إذ هم يقصدون الإجارة، ليس هو لله، بل للارتزاق، و معلم الصبيان القرآن كالكاتب، إن كان لأجر لا، وحسبة لا بأس به، آه.
البحر الرائق (2/ 327):
وكل شيء يكره فيه كره في سطحه.  واستثنى البزازي من كراهة التعليم بأجر فيه أن يكون لضرورة الحراسة.  
البحر الرائق (5/ 270):
ويجوز الدرس في المسجد وإن كان فيه استعمال اللبود والبواري المسبلة لأجل المسجد.  لو علم الصبيان القرآن في المسجد لا يجوز ويأثم، وكذا التأديب فيه أي لا يجوز التأديب فيه إذا كان بأجر وينبغي أن يجوز بغير أجر، وأما الصبيان فقد قال النبي جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم. وكذا لا يجوز التعليم في دكان في فناء المسجد هذا عند أبي حنيفة،  وعندهما يجوز إذا لم يضر بالعامة.
تبيين الحقائق (1/ 352):
وفي جوامع الفقه: يكره التعليم فيه بأجر، وكذا كتابة المصحف فيه بأجر، وقيل إن كان الخياط يحفظ المسجد فلا بأس بأن يخيط فيه…...  وكل ما يكره فيه يكره في سطحه.
حلبی کبیر/ غنیة المتملی فی شرح منیة المصلی (ص، 612-611):
فصل فی أحکام المسجد:……….أما الکاتب و معلم الصبیان فإن کان بأجر یکره، و إن کان حسبة فقیل لا یکره، و الوجه ما قاله ابن الهمام أنه یکره التعلیم إن لم یکن ضرورة؛ لأن نفس التعلیم و مراجعة الأطفال لا یخلو عما یکره فی المسجد مع ما تقدم من الحدیث.
خلاصة الفتاوی (1/229):
و الخیاط إذا کان یخیط فی المسجد یکره، إلا إذا جلس لدفع الصبیان و صیانة المسجد فحینئذ لا بأس به. و کذا الکاتب إذا کان یکتب بأجر یکره، و بغیر أجر لا یکرهأما المعلم الذی یعلم الصبیان بأجر إذا جلس فی المسجد یعلم الصبیان لضرورة الحر وغیره لا یکره فی نسخة القاضی الإمامؒ. و فی إقرار العیون جعل مسئلة المعلم کمسئلة الکاتب و الخیاط، فإن کان یعلم حسبة لا بأس به، و إن کان بأجر یکره إلا إذا وقع ضرورة.
الدر المختار (6/ 427):
 وفي الوهبانية قال……: ويفسق معتاد المرور بجامع  ومن علم الأطفال فيه ويوزر
رد المحتار (6/ 428):
قوله ( ومن علم الأطفال إلخ ) الذي في القنية أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق، ولم ينقل عن أحد القول به، ويمكن أنه بناء على أنه بالإصرار عليه يفسق،  أفاده الشارح .
 قلت: بل في التاترخانية عن العيون: جلس معلم أو وراق في المسجد فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة.  وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به آه.  لكن استدل في القنية بقوله عليه الصلاة والسلام"جنبوا مساجدكم صبيانكم ومجانينكم".
فتاوی دار العلوم دیوبند (14/205):
سوال: (37) ما قولکم فی من یعلم القرآن و الأحادیث و الفقه و الصرف و النحو و غیرها من الفنون بالأجرة قاعدا فی المسجد؟ هل هو جائز شرعًا أم لا؟ فإن جاز فما الدلیل علیه؟ و إنی قد سمعت من الأساتذة الکبار أنهم کانوا یفتون بعدم جوازه. (1697/ 1335ھ)
الجواب: قال فی الدر المختار: "و مسجد أستاذه لدرسه أو لسماع الأخبار أفضل اتفاقا." و فیه بعده: "و جعل المسجدین واحدا و عکسه لصلاة لا لدرس أو ذکر الخ لأنه ما بنی لذلك و إن جاز فیه" الخ. و فیه من کتاب القضاء: "و یقضی فی المسجد و یختار مسجدا فی وسط البلد تیسیرا للناس و یستدبر القبلة کخطیب و مدرس." فهذه الروایات بإطلاقها تدل علی الجواز، سواء کان الدرس بأجر أو بغیر أجر"و فی الوهبانیة: و من علم الأطفال فیه و یوزر، الذی فی القنیة: أنه یأثم به و لا یلزم منه الفسق، و لم ینقل عن أحد القول به، و یمکن أنه بناه علی أنه بالإصرار علیه یفسق، أفاده الشارح. قلت: بل فی التتارخانیة عن العیون: جلس معلم أو وراق فی المسجد، فإن کان یعلم أو یکتب بأجر یکره إلا لضرورة. و فی الخلاصة: تعلیم الصبیان فی المسجد لا بأس به." (رد المحتار)فالحاصل أن الجواز هو الراجح، خصوصا فی موضع الضرورة،فقط.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

14/جمادی الآخرۃ/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب