021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکوۃ کی رقم سے لوگوں کو سستا کھانا دینے کا حکم
75487زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

چند آدمی، لوگوں بالخصوص سفید پوش افراد کے لیے ایک این جی او قائم کر رہے ہیں، این جی او کا مقصد لوگوں کو سستا کھانا فراہم کرنا اور ان کی بھوک مٹانا ہے۔ اب لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہوں گے جو مستحقِ زکوۃ نہیں ہوں گے، اور این جی او  کھانا لینے والوں سے یہ معلوم نہیں کرسکتا کہ وہ مستحقِ زکوۃ ہیں یا نہیں۔ جبکہ این جی او میں زکوۃ کی رقم بھی شامل ہوگی۔ آپ ایسے طریقہ کی طرف راہنمائی فرمائیں جس سے زکوۃ صحیح مصرف پر خرچ ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ زکوۃ اسلام کا ایک اہم رکن ہے اور لوگوں کی زکوۃ رفاہی کاموں میں خرچ کرنا ایک اہم ذمہ داری ہے جس کی ادائیگی میں انتہائی احتیاط سے کام لینا ضروری ہے، معمولی سی بے احتیاطی کا وبال بھی بے احتیاطی کرنے والے پر آئے گا۔  

زکوۃ کی ادائیگی کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ مستحقِ زکوۃ شخص کو زکوۃ کی رقم یا اس سے خریدی گئی چیز بلا عوض اس طور پر مالک بناکر دی جائے کہ زکوۃ دینے والے (یا اس کے وکیل) کو اس کا کوئی عوض یا فائدہ نہ ملے۔

لہٰذا جس کھانے کی تیاری میں زکوۃ کی رقم خرچ ہو، اگر وہ کھانا فقرا یعنی مستحقِ زکوۃ لوگوں کو ملکیتاً مفت نہیں دیا جاتا، بلکہ صرف سستا دیا جاتا ہے تو اس سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی؛ کیونکہ کھانا سستا دینے کی صورت میں اگرچہ فقرا کو ایک سہولت ملتی ہے، لیکن اس میں " تملیک العین بلا عوض  مع قطع المنفعۃ عن المملک من کل وجہ" کی شرط نہیں پائی جاتی، یعنی یہ کھانا فقرا کو اس طور پر بلاعوض مالک بناکر نہیں دیا جاتا کہ زکوۃ دینے والے (یا اس کے وکیل) کو کوئی عوض اور فائدہ حاصل نہ ہو، بلکہ فقرا سے عوض (اگرچہ کم ہو) وصول کیا جاتا ہے؛ اس لیے اس سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔

البتہ اگر زکوۃ کی رقم سے تیار کردہ کھانا فقرا یعنی مستحقِ زکوۃ لوگوں کو ملکیتاً (نہ کہ بطورِ اباحت ) مفت دیا جائےتو اس سے زکوۃ ادا ہوجائے گی۔ لیکن یہ صورت بھی انتہائی احتیاط کی متقاضی ہے، جو کھانا بچے گا وہ بھی مستحقِ زکوۃ لوگوں کو دینا لازم ہوگا۔   

جہاں تک غیر مستحقِ زکوۃ لوگوں کا تعلق ہے تو انہیں زکوۃ کی رقم سے تیار کردہ کھانا دینا اور ان کا لینا جائز نہیں۔ اس لیے منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ نمایاں جگہوں پر اعلانات لگادیں کہ اس ادارے سے ملنے والا کھانا زکوۃ سے تیار کیا جاتا ہے، اس لیے غیر مستحقِ زکوۃ لوگوں کے لیے یہاں سے کھانا لینا جائز نہیں، وہ یہاں سے کھانا نہ لیں۔ اس کے علاوہ بھی غیر مستحقِ زکوۃ لوگوں کو منع کرنے کے جو ممکنہ طریقے ہوں، انہیں اختیار کیا جائے۔ اگر اس کے باوجود کوئی غیر مستحقِ زکوۃ آدمی وہاں سے کھانا لے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا۔  

حوالہ جات
البحر الرائق (2/ 217):
قوله (هی تملیك المال من فقیر مسلم غیر هاشمی و لا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من کل وجه لله تعالیٰ)……………..المال كما صرح به أهل الأصول ما يتمول ويدخر للحاجة، وهو خاص بالأعيان، فخرج تمليك المنافع. قال في الكشف الكبير في بحث القدرة الميسرة: الزكاة لا تتأدى إلا بتمليك عين متقومة، حتى لو أسكن الفقير داره سنة بنية الزكاة لا يجزئه؛ لأن المنفعة ليست بعين متقومة ا هـ، وهذا على إحدى الطريقتين، وأما على الأخرى من أن المنفعة مال فهو عند الإطلاق منصرف إلى العين.  
وقيد بالتمليك احترازا عن الإباحة ولهذا ذكر الولوالجي وغيره أنه لو عال يتيما فجعل يكسوه ويطعمه وجعله من زكاة ماله فالكسوة تجوز لوجود ركنه وهو التمليك، وأما الإطعام إن دفع الطعام إليه بيده يجوز أيضا لهذه العلة، وإن كان لم يدفع إليه ويأكل اليتيم لم يجز لانعدام الركن وهو التمليك، ولم يشترط قبض الفقير؛ لأن التمليك في التبرعات لا يحصل إلا به. واحترز بالفقير الموصوف بما ذكر عن الغني والكافر والهاشمي ومولاه، والمراد عند العلم بحالهم، كما سيأتي في المصرف.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

15/جمادی الآخرۃ /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب