021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اساتذہ کو تنخواہ دینے کی صورتیں اور اس میں کٹوتی کا حکم
75559خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

۱۔مدرسے کے اساتذہ کو تنخواہ دینے کی کیا صورت ہے؟ اگر کوئی مدرس وقت کی پابندی نہیں کرتا تو کیا اس کی تنخواہ سے کٹوتی کی جاسکتی ہے؟۲۔ کیا مہتمم کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے مدرس کو پوری تنخواہ دے؟

۳۔ نیز یہ بتائیں کہ وقت کی پابندی کا خیال رکھنا ہر گھنٹے کے لیے ضروری ہے یا صرف صبح حاضری کے وقت پہنچنا لازم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔ مدرسہ کی انتظامیہ اور استاد کے  درمیان ہونے والا معاملہ اجارہ کا ہوتا ہے  اور استاد کی حیثیت عموماً اجیر خاص کی ہوتی ہے جس میں درج ذیل امور  کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے:

۱) معقود علیہ معلوم  و متعین ہو ، یعنی استاد سے  لی جانے والی خدمات جیسے کہ  کتنے گھنٹے تدریس   ان کے ذمہ ہے معلوم ہو۔

۲)اجرت معلوم اور متعین ہو یعنی تنخواہ کی مقدار معلوم ہو۔

۳)استاد کی خدمات کا وقت متعین ہو یعنی وہ کس وقت سے آئیں گے اور کس وقت ان کو جانے کی اجازت ہے۔

۴)طے شدہ    خدمات یا اوقات سے زیادہ کام لینے کی صورت میں ان کی صریح رضامندی    موجود ہو۔

لہذا درجبالا امور کا خیال کا رکھ کر انتظامیہ اور استاد آپس میں جس طرح معاہدہ کرنا چاہیں کر سکتےہیں اورتنخواہ کا جو طریق کار اپنانا چاہیں اپنا سکتے ہیں ، چنانچہ یہ معاہدہ سالانہ بنیاد پر بھی ہو سکتا ہے، ماہانہ بنیاد پر ہی ہو سکتا ہے اور یومیہ بنیاد پر بھی ہو سکتا ہے، البتہ اس میں ضروری یہ ہے کہ ہر بات کو تفصیلی طور پر طے کر لیا جائے ۔اس سلسلے میںعصری علوم کے وہ ادارے جو شرعی امور کے پابند ہیں ان کی پیروی بھی جاسکتی ہے تاکہ معاشرے کے عرف کے ساتھ بھی مطابقت رہے ۔

چنانچہ معاہدے پر رضامند ہو جانے کے بعد اگر کوئیاستاد طے شدہ وقت کی پابندی نہیں کرتا اور سمجھانے اور تنبیہ کرنے کے بعد بھی باز نہیں آتا تو ادارے کی انتظامیہ اس کی تنخواہ میں سے اس قدر کٹوتی کر سکتی ہے جسقدر وہغیر حاضر رہا ہو اس سے زیادہ کٹوتی کرنے کی اجازت انتظامیہ کو نہیں ہو گی۔

  • مہتمم  کی  بطور  مہتمم دو حیثیتیں  ہوتی ہیں ، ایک حیثیت سے تو وہ مدرسہ کیلئے چندہ دینے والوں کی طرف سے مدرسہ کے اخراجات پر خرچ کرنے کا وکیل ہوتا ہے ، اس کے ساتھ ہی وہ مدرسہ کے طلبہ اور  اساتذہ کی طرف سے چندہ کی رقم وصول کرنے کا وکیل بھی  ہو تا ہے ۔   مہتمم کی حیثیت میں دوسرا  پہلو یہ ہے کہ وہ مدرسہ کے  انتظام و انصرام   کا ذمہ دار ہو تا ہے۔ پہلی حیثیت سے وہ چندہ دہندگان کے دئیے ہوئے مال میں امین ہو تا  ہے،  چنانچہ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس  مال کو امانت   اور دیانت داری  سے خرچ کرے اور  دوسری حیثیت سے وہ اس بات کا اہل ہوتا  ہے کہ مدرسہ کی ضروریات اور مصلحت کو دیکھتے  ہوئے  ضروری فیصلے کرے۔

چنانچہ دونوں حیثیتوں کو دیکھتے ہوئے مہتمم کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ ایسے استاد کی  تنخواہ میں سے کٹوتی کرے جو مستقل بنیادوں پر بلا کسی عذر کے  غیر حاضر رہتا ہو البتہ کسی مصلحت   کو مد نظر  رکھتے ہوئے اگر وہ استاد کو پوری تنخواہ بھی دیتا ہے تو اس کے لئے اس بات کی اجازت ہے لیکن اگر کوئی مصلحت  و ضرورت بھی نہ ہو تو پھر مہتمم  کیلئے  جائز نہیں کہ وہ ایسے استاد کو پوری تنخواہ دے ۔

۳۔ جو وقت معاہدے میں استاد کے لئے مقرر کیا گیا ہے اس پورے وقت میں استاد کی حاضری ضروری ہے، چنانچہ جب وہ مقرر کردہ وقت میں موجود ہو گا تو ہر گھنٹے بھی موجود ہی ہو گا۔

حوالہ جات
   شرح معاني الآثار :(4/ 90)
ثنا كثير بن عبد الله المزني عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «‌المسلمون ‌عند ‌شروطهم ‌إلا ‌شرطا أحل حراما، أو حرم حلالا»۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 211):
وأما الأجير الخاص فهناك وإن وقع عمله إفسادا حقيقة إلا أن عمله يلتحق بالعدم شرعا؛ لأنه لا يستحق الأجرة بعمله بل بتسليم نفسه إليه في المدة، فكأنه لم يعمل، وعلى هذا الخلاف الحمال إذا زلقت رجله في الطريق أو عثر فسقط وفسد حمله، ولو زحمه الناس حتى فسد لم يضمن بالإجماع؛ لأنه لا يمكنه حفظ نفسه عن ذلك فكان بمعنى الحرق الغالب.
مجلة الاحکام العدلية (ص: 82):
(المادة 422) : الأجير على قسمين: القسم الأول هو الأجير الخاص الذي استؤجر على أن يعمل للمستأجر فقط كالخادم الموظف. القسم الثاني هو الأجير المشترك الذي ليس بمقيد بشرط ألا يعمل لغير المستأجر۔
(المادة 425) : الأجير يستحق الأجرة إذا كان في مدة الإجارة حاضرا للعمل ولا يشرط عمله بالفعل ولكن ليس له أن يمتنع عن العمل وإذا امتنع لا يستحق الأجرة ۔
المادة (1463) المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام :(1/ 387)
 ومعنى كونه حاضرا للعمل أن يسلم نفسه للعمل ويكون قادرا وفي حال تمكنه من إيفاء ذلك العمل أما الأجير الذي يسلم نفسه بعض المدة , فيستحق من الأجرة ما يلحق ذلك البعض من الأجرة .

محمد انس جمیل

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

١٨،  جمادی الثانی  ۱۴۴۳ ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد انس ولدمحمد جمیل

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب