021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وساوس کے مریض کے لیے کنایاتِ طلاق کے الفاظ استعمال کرنے کا حکم
75641طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

میں دونوں ٹانگوں سے معذور ہوں، وساوس، شک اور وہم کی بدترین اور تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہوں، غسل، وضو، پاکی اور ناپاکی کے وساوس سے پہلے میری جان چھوٹی ہے اور نہ ابھی، ایک مرتبہ بہشتی زیور کا مطالعہ کر رہا تھا، جس کے باب الطلاق میں میری نظر کنایہ طلاق کے الفاظ پر پڑی، اب جب سے میری شادی ہوئی ہے، کنایہ طلاق کے وساوس میں مبتلا ہو گیا ہوں، چوبیس گھنٹے میرے ذہن پر کنایہ طلاق کے وساوس سوار رہتے ہیں، بیوی کی کسی ناخوشگوار بات پر اگر غصہ آتا ہے تومنہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں، جن سے مجھے کنایہ طلاق کے وساوس آنا شروع ہو جاتے ہیں، اس وہم کو دور کرنے کے لیے مجھے اپنے الفاظ اور نیت پر بہت زیادہ غور کرنا پڑتا ہے کہ میری نیت طلاق دینے کی تھی یا نہیں؟ اکثر مجھے اپنی نیت یاد نہیں رہتی، مجھے سو فیصد یقین بھی نہیں ہوتا، یعنی میں قسم نہیں اٹھا سکتا کہ میری نیت طلاق کی تھی یا نہیں؟ کبھی کبھی ایسا وہم ہوتا ہے کہ آیا میں قسم اٹھا سکتا ہوں یا نہیں؟ ایسے الفاظ استعمال کرنے کے وقت مجھے بہت گھبراہٹ لاحق ہوتی ہے۔ اکثر میری نیت طلاق کی نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی مجھے بہت زیادہ وہم لاحق ہوتا ہے، اس طرح کی باتوں پر غور کرنے سے میرے دل میں اور زیادہ وساوس آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ان وساوس کی وجہ سے میرا بیوی سے ہمبستری کرنے سے بھی دل گھبراتا ہے کہ معلوم نہیں بیوی میرے اوپر حلال ہے یا نہیں؟ بعض اوقات ان وساوس کی وجہ سے نماز بھی نہیں پڑھی جاتی، ایک مرتبہ یہ صورتِ حال ایک عالمِ دین کے سامنے رکھی تو انہوں نے فرمایا آپ جیسے وساوس میں مبتلا مریض کے لیے کنایہ طلاق کا کوئی اعتبار نہیں، آپ کے لیے صریح طلاق کے الفاظ معنی رکھتے ہیں۔ براہ کرم ان وساوس کی صورتِ حال میں میرا مسئلہ حل فرما دیں کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟ نیز اس بیماری کے لیے کوئی قابلِ فہم اور آسان حل بھی تجویز فرما دیں۔   

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ میں نے "حرام ہے" یا "تم آزاد ہو" وغیرہ کے الفاظ کبھی نہیں کہے، البتہ یوں کہا تھا کہ اگر آپ اپنی بہن کے گھر گئی ہو تو تمہارا اس گھر میں آخری دن ہو گا، اسی طرح کے الفاظ ہوتے ہیں۔

میں دونوں ٹانگوں سے معذور ہوں، وساوس، شک اور وہم کی بدترین اور تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہوں، غسل، وضو، پاکی اور ناپاکی کے وساوس سے پہلے میری جان چھوٹی ہے اور نہ ابھی، ایک مرتبہ بہشتی زیور کا مطالعہ کر رہا تھا، جس کے باب الطلاق میں میری نظر کنایہ طلاق کے الفاظ پر پڑی، اب جب سے میری شادی ہوئی ہے، کنایہ طلاق کے وساوس میں مبتلا ہو گیا ہوں، چوبیس گھنٹے میرے ذہن پر کنایہ طلاق کے وساوس سوار رہتے ہیں، بیوی کی کسی ناخوشگوار بات پر اگر غصہ آتا ہے تومنہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں، جن سے مجھے کنایہ طلاق کے وساوس آنا شروع ہو جاتے ہیں، اس وہم کو دور کرنے کے لیے مجھے اپنے الفاظ اور نیت پر بہت زیادہ غور کرنا پڑتا ہے کہ میری نیت طلاق دینے کی تھی یا نہیں؟ اکثر مجھے اپنی نیت یاد نہیں رہتی، مجھے سو فیصد یقین بھی نہیں ہوتا، یعنی میں قسم نہیں اٹھا سکتا کہ میری نیت طلاق کی تھی یا نہیں؟ کبھی کبھی ایسا وہم ہوتا ہے کہ آیا میں قسم اٹھا سکتا ہوں یا نہیں؟ ایسے الفاظ استعمال کرنے کے وقت مجھے بہت گھبراہٹ لاحق ہوتی ہے۔ اکثر میری نیت طلاق کی نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی مجھے بہت زیادہ وہم لاحق ہوتا ہے، اس طرح کی باتوں پر غور کرنے سے میرے دل میں اور زیادہ وساوس آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ان وساوس کی وجہ سے میرا بیوی سے ہمبستری کرنے سے بھی دل گھبراتا ہے کہ معلوم نہیں بیوی میرے اوپر حلال ہے یا نہیں؟ بعض اوقات ان وساوس کی وجہ سے نماز بھی نہیں پڑھی جاتی، ایک مرتبہ یہ صورتِ حال ایک عالمِ دین کے سامنے رکھی تو انہوں نے فرمایا آپ جیسے وساوس میں مبتلا مریض کے لیے کنایہ طلاق کا کوئی اعتبار نہیں، آپ کے لیے صریح طلاق کے الفاظ معنی رکھتے ہیں۔ براہ کرم ان وساوس کی صورتِ حال میں میرا مسئلہ حل فرما دیں کہ طلاق ہوئی یا نہیں؟ نیز اس بیماری کے لیے کوئی قابلِ فہم اور آسان حل بھی تجویز فرما دیں۔   

وضاحت: سائل نے فون پر بتایا کہ میں نے "حرام ہے" یا "تم آزاد ہو" وغیرہ کے الفاظ کبھی نہیں کہے، البتہ یوں کہا تھا کہ اگر آپ اپنی بہن کے گھر گئی ہو تو تمہارا اس گھر میں آخری دن ہو گا، اسی طرح کے الفاظ ہوتے ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اگر واقعتاً  آپ شک، وہم اور وساوس کی بیماری میں مبتلا ہیں، جیسا کہ آپ نے سوال میں تفصیل ذکر کی ہے تو یہ بات جان لینا چاہیے کہ شریعت وسوس، شک اور صرف وہم کی بنیاد پر کوئی حکم نہیں لگاتی، اسی لیے فقہائے کرام رحمہم اللہ نے یہ اصول لکھا ہے کہ "اليقين لايزول بالشك" یعنی یقینی طور پر ثابت شدہ چیز صرف شک سے ختم نہیں ہوتی، جیسے نکاح جب شرعی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے ساتھ منعقد اور ثابت ہو گیا تو اس کے بعد صرف الفاظِ کنایہ استعمال کرنے  میں شک کی وجہ سے نکاح ختم نہیں ہو گا، لہذا جب تک آپ کو کنایاتِ طلاق کے الفاظ نکاح ختم کرنے کی نیت سے استعمال کرنے کا یقین نہ ہو اس وقت تک شرعاً طلاق کا حکم ثابت نہیں ہو گا۔

 واضح رہے کہ حدیثِ پاک میں وساوس کو ختم کرنے کے لیے یہاں تک فرمایا گیا ہے کہ جس شخص کو پیشاب کے قطرے نکلنے کا وہم ہوتا ہو اس کو چاہیے کہ وضو کرنے کے بعد پیشاب کی جگہ پر شلوار کے اوپر پانی کے چھينٹے مار دے، پھر اگر پیشاب کا قطرہ نکلنے کا وہم ہو تو یہ سوچے کہ یہ پیشاب کا قطرہ نہیں، بلکہ یہ وہ پانی ہے جو میں نے شلوار کے اوپر سے ڈالا تھا۔ کیونکہ یہ وساوس درحقیقت شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں، لہذا ایسے وہم اور وساوس آنے پر بالکل پریشان نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ان کے پیچھے  پڑنا چاہیے، بلکہ ایسے خیالات آنے پر کوئی دینی یا دنیوی کام شروع کر دینا چاہیے، تاکہ توجہ اور دھیان دوسری طرف لگ جائے اور ان وساوس سے توجہ ہٹ جائے۔

حوالہ جات
سنن الترمذي ت شاكر (1/ 71، رقم الحديث: 50) شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر:
- حدثنا نصر بن علي، وأحمد بن أبي عبيد الله السليمي البصري، قالا: حدثنا أبو قتيبة سلم بن قتيبة، عن الحسن بن علي الهاشمي، عن عبد الرحمن الأعرج، عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " جاءني جبريل، فقال: يا محمد، إذا توضأت فانتضح ". هذا حديث غريب. وسمعت محمدا، يقول: الحسن بن علي الهاشمي منكر الحديث، [ص:72]
وفي الباب عن أبي الحكم بن سفيان، وابن عباس، وزيد بن حارثة، وأبي سعيد. وقال بعضهم سفيان بن الحكم، أو الحكم بن سفيان، واضطربوا في هذا الحديث۔
التنوير شرح الجامع الصغير (5/ 256) مكتبة دار السلام، الرياض:
3557 - " جاءني جبريل فقال: يا محمد، إذا توضأت فانتضح". (ت) عن أبي هريرة.
(جاءني جبريل فقال: يا محمد، إذا توضأت فانتضح) تقدم الحديث في: "أتاني" من حديث أسامة بن زيد وليس هنا زيادة على ما سلف من الأمر بالانتضاح والمراد به رش الفرج بماء قليل بعد الوضوء قيل: وحكمته إزالة الوسواس، قال ابن سيد الناس: وقد صح أن المصطفى - صلى الله عليه وسلم - كان إذا توضأ نضح فرجه بالماء۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 185) دار الفكر، بيروت:في عينه رمد يسيل دمعها يؤمر بالوضوء لكل وقت لاحتمال كونه صديدا. وأقول: هذا التعليليقتضي أنه أمر استحباب، فإن الشك والاحتمال في كونه ناقضا لا يوجب الحكم بالنقض إذا اليقين لا يزول بالشك والله أعلم. نعم إذا علم من طريق غلبة الظن بإخبار الأطباء أو علامات تغلب ظن المبتلى يجب.

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراتشی

25/جمادی الاولی 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب