021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کو قبرستان میں تبدیل کرنے اور پھر دوبارہ مسجد بنانے کا حکم
79188وقف کے مسائلقبرستان کے مسائل

سوال

ایک گاؤں میں ڈیڑھ دوسو سال قبل قبرستان کے قریب ایک جگہ پر مسجد بنی ہوئی تھی، گاؤں کے لوگوں کے مشورے کے ساتھ اس مسجد کو شہید کرکے قبرستان کے قریب دوسری جگہ منتقل کردیا گیا اور پرانی مسجد کو قبرستان میں بدل دیا گیا، قبرستان میں آخری میت 1973ء میں دفن کی گئی، اب ایک صاحب نے پرانی مسجد کی جگہ جو قبرستان میں تبدیل کی گئی تھی، پر پلر(Beam) کھڑے کرکے چھت ڈال کر دوبارہ مسجد بنا دی، ابھی تک وہاں کسی نے باجماعت نماز ادا نہیں کی، البتہ وہاں قرآنِ کریم کی تعلیم دی جا رہی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اس جگہ پر دوبارہ مسجد بنانا جائز ہے؟  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت کا اصول یہ ہےکہ جس جگہ پر ایک مرتبہ شرعی اصولوں کے مطابق مسجد بن جائے تو وہ مفتی بہ قول کے مطابق قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے،کسی بھی وجہ سے اس کی مسجد والی حیثیت کو ختم نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ لوگ کسی وجہ سے اس میں نماز پڑھنا چھوڑ دیں یا وہاں سے آبادی منتقل ہو جائے، لہذا شرعاً مسجد کو ایک جگہ سے ختم کر کے دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح مسجد دوسری جگہ منتقل کرنے سے پہلی مسجد شرعاً ختم نہیں ہوتی، بلکہ پہلی جگہ (جہاں پر مسجد بنائی گئی تھی) بدستور مسجد کے حکم میں برقرار رہتی ہے، جس کا ادب واحترام بجا لانا معاشرے کے  تمام لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

لہذا دوسو سال پرانی مسجد شہید کرنے سے وہ مسجد ختم نہیں ہوئی تھی اور  اس جگہ وفات پانے والے لوگوں کو دفن کرنا ہرگز جائز نہیں تھا، اس کی وجہ سے یہ لوگ گناہ گار ہوئے ہیں، جس  پر انہیں اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے اور آئندہ کے لیے ایسے فعل سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ اور اب چونکہ عرصہ ٴ دراز (1973ء) سے لوگ وہاں میت کو دفن کرنا بھی چھوڑ چکے ہیں،  دوسرے شخص کا اسی جگہ پر مسجد تعمیر کرنا درست اور صحیح ہے اور اس جگہ کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنا اور اس میں باقاعدہ اہتمام کے ساتھ پانچ وقتی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا نہ صرف جائز، بلکہ واجب ہے۔

حوالہ جات
          درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 135) دار إحياء الكتب العربية:
(قوله ولو خرب ما حوله واستغنى عنه يبقى مسجدا عند أبي حنيفة وأبي يوسف) هو المفتى به لما قال في الحاوي القدسي قال أبو يوسف هو مسجد أبدا إلى قيام الساعة لا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى اهـ.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (4/ 358) دار الفكر-بيروت:
مطلب فيما لو خرب المسجد أو غيره (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا وهو الفتوى حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه مجتبى وهو الأوجه فتح. اھ. بحر

محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

5/رجب المرجب 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب