021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
برکت کے لیے قرآن خوانی کرنے کا حکم
75720قرآن کریم کی تفسیر اور قرآن سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

گھر یا دکان میں برکت کے لیے قرآن خوانی کرنا کیسا ہے؟ اس طرح کی قرآن خوانی میں جانا، اور وہاں پر کھانا یا مٹھائی وغیرہ کھانا کیسا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

گھر یا دکان میں برکت کے لیے قرآن خوانی کرنا جائز ہے۔ اور کسی جائز دنیوی مقصد مثلًا بیماری سے شفاء، کاروبار میں برکت و ترقی، گھر سے آفت ومصیبت دور کرنے کے لیے قرآن خوانی کرنے پر اجرت یا ہدیہ وانعام لینے اور اس کے بعد کھلایا جانے والا کھانا کھانے کی  گنجائش ہے؛ کیونکہ یہ "رقیہ" کے حکم میں ہے۔ اس بات کی مزید تفصیل یہ ہے کہ "برکت" کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں: ایک محض برکت یعنی تبرک جو قرآنِ کریم کے ساتھ لازم وملزوم ہے، اس پر اجرت لینا جائز نہیں؛ یہ رقیہ میں داخل نہیں۔ دوسرا مفہوم برکت کا وہ ہے جو کسی خاص دنیوی چیز میں مقصود ہو، مثلًا کاروبار میں برکت یعنی ترقی، نئے گھر یا گاڑی میں برکت یعنی نظرِ بد اور دیگر خطرات سے بچاؤ، یہ چونکہ ایک جائز دنیوی مقصد ہے، اس لیے یہ رقیہ میں داخل ہے اور اس پر اجرت یا ہدیہ وانعام لینے کی گنجائش ہے۔

حوالہ جات
صحيح مسلم (4/ 1727):
عن أبي سعيد الخدري أن ناسًا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا في سفر فمروا بحي من أحياء العرب، فاستضافوهم، فلم يضيفوهم، فقالوا لهم: هل فيكم راق؟ فإن سید الحي لديغ أو مصاب، فقال رجل منهم: نعم! فأتاه، فرقاه بفاتحة الكتاب، فبرأ  الرجل، فأعطي قطيعًا من غنم فأبى أن يقبلها، وقال: حتى أذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال: يا رسول الله! والله ما رقيت إلا بفاتحة الكتاب، فتبسم وقال: وما أدراك أنها رقية، ثم قال: خذوا منهم واضربوا لي بسهم معكم.
صحيح البخاري (3/ 92):
باب ما يعطى في الرقية على أحياء العرب بفاتحة الكتاب: وقال ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم: "أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله".
شرح معاني الآثار (4/ 126):
نقول نحن أيضًا: لا بأس بالاستيجار على الرقي والعلاجات كلها، وإن كنا نعلم أن المستأجر على ذلك قد يدخل فيما يرقى به بعض القرآن؛ لأنه ليس على الناس أن يرقى بعضهم بعضًا، فإذا استؤجروا فيه على أن يعملوا ما ليس عليهم أن يعملوه جاز ذلك.
إعلاء السنن (15/7447):
فأما الأخذ بالرقیة فإن أحمد اختار جوازه، وقال: لا بأس، وذکر حدیث أبی سعید، والفرق بینه و بین ما اختلف فیه: أن الرقیة نوع مداواة، والمأخوذ علیها جعل، والمداواة یباح أخذ الأجر علیها، والجعالة أوسع من الإجارة، وبهذا تجوز مع جهالة العمل والمدة. وقوله صلی الله علیه وسلم: "أحق ما أخذتم علیه أجرا کتاب الله" یعنی به الجعل فی الرقیة، لأنه ذکر ذلك أیضًا فی سیاق خبر الرقیة……………………..… الخ

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

26/جمادی الآخرۃ /1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب