021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قانون توہین رسالت سےمتعلق
75658حدود و تعزیرات کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ قانون توہینِ رسالت آزادیٔ ر ائے کے خلاف ہے اور اسکو ختم کر دینا چاہیے تو ایسے شخص کا کیا حکم ہے ؟اور کیا یہ شخص بھی شاتم رسول کے زمرے میں داخل ہو جائے گا  یا نہیں؟

(کیونکہ یہ شخص سبِّ رسول کو ایک لحاظ سے حلال سمجھ رہا ہے اورتو ہینِ رسالت کی ترغیب و ترویج کر رہا ہے)

اور ایسے شخص کی کیا سزا ہے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

توہین رسالت کاجوقانون پاکستان کےدستورمیں موجودہے،وہ تمام مکاتب فکرکی متفقہ رائےسےمنظور شدہ ہےجس کامقصدآپﷺ کی شان وحرمت کے تحفظ کویقینی بناناہے۔

لہٰذااگرکوئی شخص توہین رسالت کےقانون کومحض اس لیےآزادئی اظہاررائےکےخلاف قراردےیا مذکورہ قانون کوختم کرنےکامطالبہ کرےکہ اس قانون کےذریعےآپﷺ کی شان وحرمت کےتحفظ کویقینی بنایا گیاہے،یاتوہین رسالت میں جاری کی جانی والےسزاشرعی حکم ہے،توایساشخص بالواسطہ آپﷺ کی شان اور

شرعی حکم کی توہین کرنےوالےشخص کےمترادف ہے،اورایساکرناشرعاًموجب کفرہے۔

اگرکوئی شخص شریعت کےکسی ادنیٰ حکم کی بھی توہین وتحقیر کرےیاآپﷺ کی شان وحرمت کی توہین کرے،تووہ کافر ہوجاتا ہےاورایسےشخص پراپنےایمان کی تجدیدلازم ہے،اگرکوئی شخص مستقل توہین رسالت کےقانون کوآزادئی اظہاررائےکےخلاف قراردیتاہے،تواس کےخلاف قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

البتہ اگرتوہین رسالت کےقانون کےکسی شق میں فنی لحاظ سے واقعتاًکوئی ایسی بات ہوجس کا معاشرہ میں غلط استعمال ہورہاہو،تواس بنیادپراس قسم کےالفاظ کہنا(توہین رسالت کاقانون آزادئی اظہار رائےکےخلاف ہےوغیرہ)شرعاًاگرچہ موجب کفرنہیں ہے،مگرعام مجمع میں اس طرح کےاشکالات کرنایا کسی لٹریچرمیں اس قسم کی بات لکھناکسی صورت مناسب نہیں ہے،بلکہ اگرقانون میں فنی طورپر ایسی کوئی کمی بیشی ہےتواس کےلیےقانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔

حوالہ جات
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (5/ 134)
والحاصل أن من تكلم بكلمة الكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به قاضي خان في فتاويه ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل ومن تكلم بها عالما عامدا كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف والذي تحرر أنه لا يفتى بتكفير مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو رواية ضعيفة فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفير المذكورة لا يفتى بالتكفير بها۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 695)
ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر ومن بغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر وتطلق امرأته ثلاثا إجماعا كما في مجموعة المؤيدي نقلا عن الحاوي لكن في عامة المعتبرات أن هذه الفرقة فرقة بغير طلاق عند الشيخين فكيف الثلاث بالإجماع، تدبر.

محمدعمربن حسین احمد

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

72جمادی الثانیۃ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر ولد حسین احمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب