021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دارالکفرمیں عام شخص کا شاتم رسول کوقتل کرنےکاحکم
75657حدود و تعزیرات کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیا کسی عام مسلمان کیلئے دیانتا جائز ہے کہ وہ اس شاتم رسول کو دارالکفر میں قتل کر دے ؟ اور شاتم رسول  کودیانتا قتل  کرنےکیلئے کن کن شرائط کی ضرورت ہو گی ؟

اور اگر اس مسلمان کے پاس (بعد قتل): قضاء کے لحاظ سے ثبوت پورے نہ ہوئے تو اس مسلمان سے قصاص لیا جائے گا یا نہیں ؟

الف :اگر اس شاتم رسول نے ایک دفعہ یہ جسارت کی ہو(چاہے مرد ہو یا عورت) ؟

ب:اگر وہ شاتم رسول بار بار اور اعلانیہ یہ جسارت کرتا ہو(چاہے مرد ہو یا عورت)  ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عام مسلمان کےلیےجائزنہیں کہ وہ ازخود کسی شاتم رسول کوقتل کرے،چاہےوہ دارلکفر میں ہی کیوں نہ ہو،البتہ اگرکوئی مسلمان کسی شخص کی گستاخی ثابت ہونےکی بنیادپرازخودگستاخ کوقتل کردےتوایسےشخص کوشرعاً مقتول کےقصاص میں قتل نہیں کیاجائےگاجبکہ قاتل مقتول کی گستاخی کوعدالت میں قاضی کےسامنےثابت کردے۔

البتہ اگرقاضی کےسامنےگستاخی ثابت نہ کرسکےتوقاضی کےلیےشرعاًایسےشخص کوقتل کرناجائز ہے،تاہم اخروی لحاظ سےایسےشخص سےمؤاخذہ نہیں ہوگا،جوحقیقۃًگستاخی کی بنیادپرکسی شخص کوقتل کرے،چاہےشاتم رسول ایک بارجسارت کرےیاباربار جسارت کرے، قاضی کی شرعاًیہ ذمہ داری ہےکہ وہ شرعی گواہوں اورشرعی ثبوت کی بنیادپرفیصلہ کرے۔

تاہم دارالکفرمیں رہتےہوئےوہاں کی جائزقانون کی پاسداری لازم ہے،لہٰذادارالکفرکےمسلمانوں کے لیےلازم

ہےکہ وہ ایسےشخص کےخلاف قانونی راستہ اختیارکرے،ازخودکسی شخص پرکسی قسم کی سزاجاری کرناجائزنہیں ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المختار): (4/ 31):
(والخليفة): الذي لا والي فوقه (يؤخذ بالقصاص والأموال): لأنهما من حقوق العباد،
فيستوفيه ولي الحق إما بتمكينه أو بمنعة المسلمين، وبه علم أن القضاء ليس بشرط لاستيفاء القصاص والأموال بل للتمكين فتح (ولا يحد): ولو قذف لغلبة حق الله تعالى وإقامته إليه ولا ولاية لأحد عليه (بخلاف أمير البلدة): فإنه يحد بأمر الإمام، والله أعلم.
الصارم المسلول على شاتم الرسول (ص: 132):
الوجه الثاني: أن هؤلاء النسوة كن من أهل الحرب وقد آذين النبي صلى الله عليه وسلم في دار الحرب ثم قتلن بمجرد السب كما نطقت به الأحاديث فقتل المرأة الذمية بذلك أولى وأحرى كالمسلمة لأن الذمية بيننا وبينها من العهد ما يكفها عن إظهار السب ويوجب عليها التزام الذل والصغار ولهذا تؤخذ بما تصيبه للمسلم من دم أو مال أو عرض والحربية لا تؤخذ بشيء من ذلك.
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (7/ 5582):
ولا يقتل المرتد إلا الإمام أو نائبه، فإن قتله أحد بلا إذنهما، أساء وعزر، ولكن لا ضمان بقتله ولو كان القتل قبل استتابته، أو كان مميزاً، إلا أن يلحق بدار الحرب فلكل أحد قتله وأخذ مامعه.

محمدعمربن حسین احمد

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

72جمادی الثانیۃ 1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر ولد حسین احمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب