021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پب جی اوردوسرےگیمزکھیل کرپیسےکمانےکاحکم
75888جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

سوال یہ ہےکہ گیمزکھیل کرپیسےکماناجائزہے؟

دوسراسوال یہ ہےکہ پب جی گیم کھیل کرپیسےکمانےکاکیاحکم ہے؟

وضاحت فرما دیں ۔۔۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

گیمزکھیل کرپیسےکمانےکاشرعی حکم گیمزکھیلنےکےطریقہ کارکےاعتبارسےمختلف ہے،جس کی چند صورتیں درج ذیل ہیں:

1۔ اگرگیمزمیں دونوں جانب سےشرط رکھی گئی ہوکہ جوگیم جیتےگا،ساری رقم اس کومل جائےگی،یایہ صورت کہ جوگیمزہارےگااس کےاکاؤنٹ سےپیسےمائنس ہوجائیں گے،مذکورہ بالادونوں صورتیں جوے (قمار) کےتحت داخل ہونےکی وجہ سےناجائزہے۔

2۔اگرشرط کسی ایک جانب سےہو،جیساکہ عام طورپرآن لائن گیمز میں ہوتاہےکہ اگرجیت جائےتو کچھ کوائن وغیرہ کی صورت میں پیسےملتےہیں،تویہ صورت جائزہے۔

3۔اگرشرط کسی تیسرےشخص کی جانب سےہو،کہ جوبھی جیتےگااس کورقم مل جائےگی۔تویہ صورت بھی جائز ہے۔

4۔ان کےعلاوہ بنیادی شرط یہ ہےکہ گیم کھیلنےمیں کسی قسم کادینی یادنیوی فائدہ ہو،اورگیم میں کسی قسم کی ناجائزاورغیرشرعی امورکاارتکاب بھی نہ کیاجاتاہو۔

البتہ پب جی گیم میں پیسےکمانےکی جوصورت ہوتی ہے،وہ یہ کہ گیمز کی ویڈیوزریکارڈ کرکےان کو یوٹیوب میں اپلوڈکیاجاتاہےجس کےذریعےدیکھنےوالوں کوپب جی گیم کھیلنےکاشوق پیداہوتاہے،اورویورکےذریعےپیسے کمائےجاتےہیں۔تاہم پب جی گیم کھیلنااوراس سےپیسہ کمانا دیگر شرعی مفاسد کی وجہ سےناجائز ہے،جودرج ذیل ہیں:

  1. شریعت میں ایسےانٹرٹینمنٹ کی اجازت ہےجس میں کسی قسم کادینی یادنیوی فائدہ ہو،جبکہ پب جی میں اس کے برعکس دنیوی اعتبارسےبھی بہت سےنقصانات ہیں،مثلاًیہ گیم کھیلنےوالااس کابری طرح عادی ہوجاتاہےجسکی وجہ سےمختلف قسم کی نفسیاتی اورذہنی امراض کاشکارہوجاتاہے۔جبکہ دینی اعتبارسےنقصان یہ ہےکہ یہ گیم کھیلنےوالا

شخص عام طورپرفرائض کی ادائیگی سےبھی غفلت برتنےلگتاہے۔

  1. خودکشی کےبہت سےواقعات بھی مبینہ طورپرپب جی گیم کھیلنےوالوں کی طرف منسوب ہیں،جن میں اکثریت نوجوان عمرکےبچوں کی ہے۔

لہٰذااس قسم کی دیگرکئی مفاسدپائےجانےکی وجہ سےپب جی گیم کھیلنااوراس سےپیسےکمانادونوں ناجائزہے۔

حوالہ جات
(فی القرآن الکریم):
وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان واتقوا الله إن الله شديد العقاب
"المائدة: 2"
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 553):
(ويحرم اللعب بالنرد أو الشطرنج) وقد مر تفصيلهما في الشهادة (والأربعة عشر) وهو لعب يستعمله اليهود (وكل لهو) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «كل لعب ابن آدم حرام» الحديث.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 321):
. (و) كره (اللعب بالشطرنج والنرد وكل لهو) لقوله - صلى الله عليه وسلم - «كل لعب ابن آدم حرام إلا ثلاثة ملاعبة الرجل أهله وتأديبه لفرسه ومناضلته لقوسه»
(ولا بأس بالمسابقة في الرمي والفرس والإبل إن شرط المال من جانب واحد) بأن يقول أحدهما لصاحبه إن سبقتني فلك كذا، وإن سبقتك فلا شيء لي لقوله - صلى الله عليه وسلم - «لا سبق إلا في خف أي بعير أو نضل أي رمي أو حافر أي فرس» (وحرم لو) شرطاه (من الجانبين) بأن يقول إن سبق فرسك أعطيتك كذا، وإن سبق فرسي فأعطني كذا (إلا إذا أدخلا ثالثا بينهما) وقالا للثالث إن سبقتنا فالمالان لك، وإن سبقناك فلا شيء لنا عليك ولكن أيهما سبق أخذ المال المشروط وكذا المتفقهة إذا شرط لأحدهما الذي معه الصواب صح، وإن شرطاه لكل واحد منهما على صاحبه لم يجز كما في المسابقة.
الهداية في شرح بداية المبتدي (4/ 380):
لنا قوله عليه الصلاة والسلام: "من لعب بالشطرنج والنردشير فكأنما غمس يده في دم الخنزير" ولأنه نوع لعب يصدعن ذكرالله وعن الجمع والجماعات فيكون حراما لقوله عليه الصلاة والسلام: "ما ألهاك عن ذكر الله فهو ميسر"
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (6/ 32)
وأما منفعته التي ذكرها فمغلوبة تابعة والعبرة للغالب في التحريم ألا ترى إلى قوله تعالى {وإثمهما أكبر من نفعهما} [البقرة: 219] فاعتبر الغالب في التحريم، وهل رئي من يلعب بالشطرنج يصلي فضلا عن الجماعة، وإن صلى فقلبه متعلق به فكان في إباحته إعانة الشيطان على الإسلام والمسلمين۔

 محمدعمربن حسین احمد

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

3رجب المرجب1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد عمر ولد حسین احمد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب